Inquilab Logo Happiest Places to Work

سی اے اےسپریم کورٹ کے ۱۹۹۴ء کےفیصلے کی رُوسےغیر آئینی ہے

Updated: March 22, 2021, 9:24 AM IST | Inquilab News Network | New Delhi

جسٹس (سبکدوش) گوپال گوڑ کی دلیل، ایس آر بومئی کیس کو پیش کیا، این آر سی اور این پی آرکی بھی مخالفت کی

Supreme Court - Pic : INN
سپریم کورٹ آف انڈیا ۔ تصویر : آئی این این

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس گوپال گوڑ  نے  سپریم کورٹ  کے ہی ۱۹۹۴ء کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ غیر آئینی ہے۔ 
  ان کے مطابق ’’۱۹۹۴ء  کے ایس آر بومئی کورٹ میں سپریم کورٹ کی آئینی بنچ  نے جو ضابطہ وضع کیا ہےوہ واضح طور پر کہتا ہے کہ پارلیمنٹ یا ریاستی اسمبلیاں ایسا قانون نہیں بنا سکتیں جو مذہب کی بنیاد پر امتیاز برتنے والا ہو۔ میرے نقطہ نظر سے سی اے اے شہریوں  میں  مذہب کی بنیاد پر فرق کرتا ہے اس لئے بومئی کیس کی رُو سے یہ غیر آئینی ہے۔‘‘ 
 جسٹس گوڑ نے یہ باتیں سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر کے ایس چوہان کی   کتاب ’’سٹیزن شپ، رائٹس اینڈ کانسٹی ٹیوشنل لمیٹیشن‘‘ (شہریت، حقوق  اور آئینی حد بندیاں) کے اجراء کے موقع پر کہیں۔آسام این آر سی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں   نےبتایاکہ ’’لاکھوں افراد ایسے ہیں جن کے آباو اجداد نے کئی دہائیوں قبل نقل مکانی کی تھی  مگر آج ان کے پاس ایسا کوئی دستاویز نہیں  جس سے وہ اپنی شہریت ثابت کرسکیں۔‘‘ 
 جسٹس گوڑ آسام  این آرسی کی حقیقت جاننے کیلئے جانے والی ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کا حصہ رہ چکے ہیں۔ این پی آر اور این آرسی کی مخالفت کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ ’’این پی آر اور این آرسی کسی ایک شخص کو یہ اختیار دے دیتا ہے کہ وہ ایسے شخص کی حیثیت طے کرے اور اس کے بنیادی حقوق کا تعین کرے  جو پہلے سے ہندوستان میں رہ رہاہے۔‘‘ این پی آر اور این آر سی کرنے والے سرکاری عملے کے افراد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سابق جج  نے کہا ہے کہ ’’اس طرح وہ شخص کو جو خود کچھ نہیں ہے،  محض    قانون کے تحت  ناموں کا، موت اور پیدائش  اندراج کرتاہے اسے یہ اختیار  ہوگا کہ وہ جانچ کرے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK