Inquilab Logo Happiest Places to Work

ووٹرلسٹ کو آدھار سے جوڑنے کا بل لوک سبھا میں منظور

Updated: December 21, 2021, 8:40 AM IST | new Delhi

اپوزیشن صدائے احتجاج بلند کرتا رہ گیا، مسودہ ٔ قانون کو اسٹینڈنگ کمیٹی میں بھیجنے کی اپیل پر توجہ دی گئی نہ اس پر عوامی رائے جاننے کے مطالبے کو خاطر میں لایا گیا

Law Minister Kiran Rejeju responding to a debate in Parliament. (PTI)
وزیر قانون کرن رجیجو پارلیمنٹ میں بحث کا جواب دیتے ہوئے۔( پی ٹی آئی)

 فہرست رائے دہندگان کو آدھار کارڈ سے جوڑنے کے مسودہ ٔ قانون کو پیر کو لوک سبھا میں پیش کرکے  حکومت نے مختصر سے مباحثہ کے بعد صوتی ووٹوں سے منظور کرا لیا۔ اس دوران اپوزیشن کی جانب سے  بل کو اسٹینڈنگ کمیٹی میں  بھیجنے اوراس پر عوامی   رائے جاننے سے متعلق مطالبات کئے گئے مگر حکومت نے انہیں نظر انداز کردیا۔  بل کی منظوری کے فوراً بعد لوک سبھا کی کارروائی دن بھر کیلئے ملتوی کردی گئی۔   
بل کو اسٹینڈنگ کمیٹی میں بھیجنے کا مطالبہ مسترد
 قانون اور انصاف کے وزیر کرن رجیجو جنہوں  نے انتخابات سے متعلق اصلاحات کو ملک کیلئےضروری قرار دیتے ہوئے ’’الیکشن قوانین (ترمیمی) بل ۲۰۲۱ء‘‘ ایوان میں پیش کیا، نے اسے اسٹینڈنگ کمیٹی  کے مطالبے کو مسترد کردیا۔ انہوں نے اس کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ بل میں جو تجاویز ہیں ان میں سے اکثر خود اسٹینڈنگ کمیٹی برائے قانون و افردی قوت نے پیش کی ہیں۔  انہوں نے کہا کہ اس سے ایک طرف ووٹر لسٹ میں دہرے پن(ایک ہی نام کے کئی جگہ اندراج)  اور فرضی ووٹنگ کو روکنے میں کامیابی ملے گی  وہیں  یہ صنفی امتیاز کو بھی ختم کرے گا۔‘‘ انہوں نے اپوزیشن  کے اراکین کے اندیشوں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی مخالفت میں جو دلائل  دیئے گئے  ہیں وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو غلط انداز سے پیش کرنے کی کوشش ہے جبکہ  پیش کردہ مسودہ قانون   عدالت کے  فیصلے کے مطابق ہے۔
ووٹر کارڈ کو آدھار کارڈ  سے جوڑنالازمی نہیں اختیاری ہوگا
  انہوں نے کہاکہ حکومت نے عوامی نمائندگی قانون  میں ترمیم کی تجویز اس لئے رکھی ہے تاکہ یقینی بنایا جاسکے کہ کوئی شخص ایک سے زیادہ حلقہ میں خود کو بطور ووٹر  رجسٹر دنہ کراسکے اور فرضی طریقہ سے ووٹنگ کو روکا جاسکے۔انہوں نے کہاکہ اس بل کے ذریعہ ووٹر کارڈ کو آدھار کارڈ سے جوڑنے کا التزام کیا گیا ہے جو لازمی نہیں  اختیاری ہے۔
صنفی امتیاز کو دور کرنے کی کوشش
 وزیر نے کہاکہ اس بل کے ذریعہ صنفی امتیاز کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔  سرکاری ملازمت کرنے والے ووٹروں کیلئے یہ بل صنفی غیرجانبداری کا نظم کرتا ہے۔موجودہ قانون    کے تحت فوجی کی بیوی فوجی ووٹر کے طورپر رجسٹریشن کرانے کی اہل ہے لیکن خاتون فوجی اہلکارکا شوہر اس کا  اہل نہیں ہے۔ اس بل کو پارلیمنٹ کی منظوری ملنے کے بعد صورتحال تبدیل ہوجائے گی۔
بطور ووٹر اہلیت کیلئے ۴؍ تاریخیں طے کی گئیں
 انہوں نے کہاکہ یکم جنوری کو  یا اس سے پہلے ۱۸؍ سال مکمل ہونے پر ہی نوجوان بطور ووٹر اپنا اندراج کراسکتے تھے۔ یکم جنوری کے بعد ۱۸؍ سال کی عمر کو پہنچنے والے نوجوانوں کو اپنے اندراج کیلئے آئندہ یکم جنوری کا انتظار کرنا ہوتا تھا مگر اب یکم جنوری کے علاوہ یکم اپریل، یکم جولائی اور یکم اکتوبر کو بھی جس کی عمر اٹھارہ سال کی ہوگی وہ ووٹر لسٹ میں اپنا نام رجسٹرڈ کرانے کا  اہل ہوگا۔
 الیکشن کارڈ کو آدھار سے جوڑنے کی مخالفت
  اس دوران کانگریس کے  لیڈرمنیش تیواری نے الیکشن کارڈ کو آدھار  سے جوڑنے کی مخالفت کی اور کہا کہ ووٹر کارڈ کو اس طرح آدھار سے نہیں جوڑا جاسکتا ہے۔ اسے  واپس لیاجانا چاہئے۔ ششی تھرور نے کہاکہ آدھار کو رہائش گاہ کے ثبوت کے طورپر قبول کیا جاسکتا ہے شہریت کیلئے نہیں۔ووٹر کارڈ کو آدھار سے جوڑنے کا مطلب ہے کہ غیر شہریوں کو ووٹنگ کا حق دینا۔ ایسا نہیں کیا جاسکتا۔ ترنمول کانگریس کے سوگت رائے نے کہاکہ اس بل میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور یہ بنیادی حقوق کے  بھی خلاف ہے۔ اس لئے ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ مجلس اتحاد المسلمین  صدر اسدالدین اویسی نے کہاکہ یہ بل آئین  میں دیئے گئے بنیادی حقوق اور پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی کرتا ہے اورخفیہ رائے شماری کے بھی خلاف ہے۔
حکومت کی جلد بازی پر کانگریس اور این سی پی کا اظہار حیرت
  اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ اس بل کو جلد بازی میں منظور کرانے  کے بجائے اس پر تفصیلی غوروخوض کیا جانا چاہے۔اسی  بنیاد پر اپوزیشن کی جانب سے بل کو پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں بھیجنے کی مانگ کی گئی۔  کانگریس لیڈر ادھیر رنجن  چودھری اور این سی پی لیڈر سپریا سُلے نے حیرت کا اظہار کیا کہ اتنے اہم قانون کو اتنی جلد بازی میں کیوں منظور کرایا جارہاہے۔ اپوزیشن کے کئی لیڈروں  نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ قانون بنانے سے پہلے عوامی رائے جان لی جائے۔ آر ایس پی کے رکن پریم چندرن نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون سازی کا صحیح  طریقہ نہیں ہے۔ ایوان میں تفصیلی غوروخوض اور بحث ہونی چاہئے۔ بل کی مخالفت کرنے والوں میںکانگریس، این سی پی اور مجلس اتحاد المسلمین کے علاوہ   رتیش پانڈے (بی ایس پی)،   کلیان بنرجی (ٹی ایم سی)، ای ٹی محمد بشیر(مسلم لیگ) شامل تھے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK