Inquilab Logo Happiest Places to Work

بھیونڈی:اسٹینڈنگ کمیٹی میں سب سے زیادہ اراکین ہونے کے باوجود کانگریس کی شکست

Updated: February 12, 2022, 8:01 AM IST | Khalid Abdul Qayyum Ansari | Mumbai

کراس ووٹنگ کا شاخسانہ ، شیوسینا نے بی جے پی کے ساتھ مل کر کانگریس کو شکست سے دوچار کیا، کانگریسی اُمیدوار نے گروپ لیڈر کو ہی کٹہرے میں کھڑا کردیا،اراکین کی خرید و فروخت کاسنسنی خیز الزام

Presiding Officer Rajesh Narvikar and newly elected Chairman Sanjay Mahatre.
پریسائیڈنگ آفیسر راجیش نارویکر اورنومنتخب چیئرمین سنجے مہاترے۔

یہاں اسٹینڈنگ کمیٹی چیئرمین کے انتخاب میں ایک مرتبہ پھر کانگریسی کارپوریٹروں کی کراس ووٹنگ کے سبب کانگریس کے اُمیدوار کو بری طرح شکست سے دوچار ہونا پڑا۔کانگریس کے شکست خوردہ اُمیدوار نے اراکین کی خرید و فروخت کا سنسنی خیز الزام عائد کرتے ہوئے گروپ لیڈر کو ہی کٹہرے میں کھڑا کردیا اور کہا کہ کانگریس کے گروپ لیڈر حلیم انصاری  نے ریاستی صدر کے حکم کے باوجود وہپ جاری نہیں کیااور اپنی اہلیہ سمیت ۶؍کانگریسی کارپوریٹروں کے ساتھ  شیوسینا کے حق میں ووٹنگ کیا۔مزے کی بات  یہ ہے کہ  ریاست میں شیوسینا اور بی جے پی میں سخت حریفائی کے باوجود اسٹینڈنگ کمیٹی کے انتخاب میں بی جے پی کے اراکین نے حیرت انگیز طور پرشیوسینا کو ووٹ دے کر ان کے اُمیدوار کو کامیاب کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 
  منگل۸؍فروری کو بھیونڈی نظام پور میونسپل کارپوریشن کی اسٹینڈنگ کمیٹی چیئرمین کے عہدے کاانتخاب میونسپل ہیڈکوارٹرز کے یشونت چودھری آڈیٹوریم میں منعقدہ ہوا۔انتخاب کے بعد پریسائیڈنگ آفیسر اور تھانے کے کلکٹر ڈاکٹر راجیش نارویکر نے شیوسینا کے اُمیدواراور سابق رکن اسمبلی روپیش مہاترے کے بھائی سنجے مہاترے کے چیئرمین منتخب ہونے کا اعلان کیا۔ سنجے مہاترے کوکانگریس کے۶،بی جے پی کے ۴؍،کونارک وکاس اگھاڑی اور شیوسینا کے ۲،۲؍اراکین کی حمایت کے باعث   ۱۴؍ اور ان کے حریف کانگریس کے ارون رام چندر راؤت کو صرف۲؍ ووٹ ملے۔
 یاد رہے کہ ۱۶؍ رکنی اسٹینڈنگ کمیٹی میں سب سے زیادہ  ۸؍ اراکین کانگریس،۴؍ بی جے پی، کونارک وکاس اگھاڑی اور شیوسینا کے ۲، ۲؍ اراکین  ہیں۔ کانگریس کی شکست فاش نے ۵؍ دسمبر۲۰۱۹ء کو ہونے والے میئر کے انتخاب کی یاد تازہ کر دی۔ جب صرف ۴؍ کارپوریٹروں والی کونارک وکاس اگھاڑی نے واضح اکثریت سے بھی زیادہ ۴۷؍ کارپوریٹروں والی کانگریس کوبی جے پی کی مدد سے شکست دے کر میئر کے عہدے پر قبضہ کیا تھا۔اس وقت کانگریس کے ۱۸؍کارپوریٹروں نے بغاوت کی تھی۔
 ذرائع سے موصول اطلاع کے مطابق  ا سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین کے عہدے ےکیلئے ہونے والے انتخاب کیلئے۷؍ فروری بروز پیر کو کانگریس پارٹی نے ارون راؤت کو اپنا باضابطہ امیدوار قرار دیا تھا۔ اسٹینڈنگ کمیٹی چیئرمین کیلئے کانگریس کے اُمیدوار ارون راؤت کے مطابق ’’کانگریس کے صوبائی صدر نانا پٹولے نے میونسپل کارپوریشن میںکانگریس کے گروپ لیڈرحلیم انصاری کو ان کے حق میں ووٹنگ کو یقینی بنانے کیلئے اسٹینڈنگ کمیٹی کے کانگریسی کارپوریٹروں کو وہپ جاری کراس کی تعمیل کرکے اس کی ایک کاپی ریاستی کانگریس کمیٹی کے دفتر کو بھیجنے کو کہا گیاتھالیکن حلیم انصاری نے نانا پٹولے کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئی وہپ جاری نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود ان کی اہلیہ ریشماں بانو انصاری، پرشانت لاڈ، ڈاکٹر زبیر انصاری، عارف خان اور وسیم انصاری سمیت ۶؍کانگریسیوں نے بے خوف ہوکرکانگریسی اُمیدوار کے بجائے شیوسینا کے اُمیدوار سنجے مہاترے کے حق میں ووٹ دیا۔کانگریس کو جو ۲؍ووٹ ملے ، ان میں ایک ووٹ ان کا خود کا تھا جبکہ دوسرا ووٹ رشیکا پردیپ راکا کا تھا۔‘‘
 ارون راؤت نے کانگریسی اُمیدوار کے بجائے شیوسینا کے حق میں ووٹنگ کرنے والے کارپوریٹروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے   اسٹینڈنگ کمیٹی کے انتخاب میں اراکین کی خرید و فروخت  اورمالی بدعنوانی کا سنسنی خیزالزام عائد کیا  ہے۔


 
 اس ضمن میں کانگریس کے گروپ لیڈر  حلیم انصاری نے کسی بھی طرح کی خرید و فروخت اور بدعنوانی کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’’منگل کی صبح انہیں ارون راؤت کی حمایت میں وہپ جاری کرنے کا مکتوب وہاٹس ایپ پر موصول ہواتھامگر اس پرکوئی بھی اراکین تیار نہیںتھا۔اگر پارٹی کو اپنا اُمیدوار بنانا تھا تو اسے پہلے ہی اس کا فیصلہ کرکے انہیں مطلع کردینا چاہئےتھا۔‘‘
  اسٹینڈنگ کمیٹی کے رکن اورکانگریسی کارپوریٹر عارف خان نے بھی ارون راؤت کے سبھی الزامات کی تردید کرتے ہوئے بتایاکہ کانگریس کے ساتھ شروع سے ہی شیوسینا کا گٹھ بندھن تھاجس کے تحت اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین کا عہدہ ایک سال کانگریس اور ایک سال شیوسینا کو دینا طے کیا گیا تھا۔
 انہوں نے یہ بھی بتایا کہ چوتھے ٹرم میں کورونا  پھیلنے کے کے باعث اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین کاانتخاب۴؍سے۶؍ماہ تک التواء کا شکار رہاتھا۔جب گزشتہ سال مئی  میں الیکشن طے ہوا تو ستمبر تک صرف ۴؍ماہ کا وقت باقی تھا ۔اس قلیل عرصے میں کوئی بھی انتخاب لڑنے کو تیار نہیں تھا جس کے بعد یہ طے پایا کہ پانچواں ٹرم جو ۴؍سے۶؍ما ہ پر محیط ہوتا ہے  ،اسے بھی  شیوسینا کو دے دیا جائے۔اس وقت اسٹینڈنگ کے سبھی اراکین نے اس پر اتفاق کیا تھا۔ہم نے اسی وعدے کو پورا کیا ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK