EPAPER
Updated: February 03, 2022, 8:53 AM IST | Jerusalem
حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم نے یہودی ریاست پر اہل فلسطین کے ساتھ نسلی امتیاز کا الزام لگایا،مظالم کی مختصر تاریخ بیان کی اور اسرائیل کی جوابدہی طے کرنے پر زور دیا
حقوق انسانی کیلئے کام کرنے والی نوبیل انعام یافتہ بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی نےفلسطین کے تعلق سے اپنی تازہ رپورٹ میں اسرائیل پر ’نسل پرستی‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے اسے کٹہرے میں کھڑا کیا ہے اور عالمی برادری کو متوجہ کیا ہے کہ فلسطینی شہریوں کے ساتھ تل ابیب کے رویے پر اسے جوابدہ کیا جانا چاہئے۔ منگل کو جاری کی گئی ۲۸۰؍ صفحات پر مشتمل رپورٹ میں تفصیل سے اس بات کا احاطہ کیاگیا ہے کہ کس طرح صہیونی ریاست منظم طریقے سے فلسطینیوں کےساتھ ’’کمتر درجے کے نسلی گروہ‘‘ جیسا سلوک کرتی ہے۔
اسرائیل انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب
اپنی تفصیلی رپورٹ میں بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کی املاک کی ضبطی، انہیں حراست میں لئے جانے اورشہریت سے محروم رکھے جانے کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ایمنسٹی نے ان عوامل کو اس نظام کا حصہ بتایا جو عالمی قوانین کی رو سے ’’نسلی امتیاز‘ ‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔ رپورٹ کی تیاری میں ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ اور اسرائیل میں سرگرم حقوق انسانی کی کی تنظیم ’’بی ٹی سلیم‘‘ جیسی دیگر معروف تنظیموں نے بھی تعاون کیا ہے۔ ایمنسٹی نے اسرائیل کے رویے کو انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے مین شامل کیا ہے۔
اسرائیل میں فلسطینیوں پر مظالم
ایمنسٹی کی رپورٹ۱۹۴۸ء میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے اعلان کے بعد سے اسرائیل میںموجود فلسطینی آبادی پر ایک مختصر تحقیقاتی تاریخ پیش کرتی ہے۔ اس کے مطابق اس دوران تقریباً ۷؍لاکھ فلسطینی، یعنی موجودہ اسرائیل کے تقریباً ۸۰؍ فیصد فلسطینی آبادی، یا تو وہاں سے نکل گئی یا پھر اسے بے دخل کر دیا گیا۔ بیشتر پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔فی الوقت اسرائیل کی جو کل۹۴؍ لاکھ کی آبادی ہے اس میں۲۰؍ فی صد فلسطینی ہیں لیکن اگر مغربی کنارے اور غزہ کو بھی اس میں شامل کر لیا جائے تو یہودی اور عرب آبادی تقریباً برابر ہو جائے گی۔
اسرائیل میں مقیم فلسطینی شہریت سے محروم
رپورٹ کے مطابق ۱۹۴۸ء میں اپنے قیام کے اعلان کے بعد سے اسرائیلی ایک ایسی پالیسی پر عمل کررہاہے جس کا مقصد یہودی اکثریت کو یقینی بنانا اور وسائل کو یہودی آباد کے حق میں استعمال کرنا ہے۔ اسرائیل نے جن علاقوں پر بھی اپنا کنٹرول قائم کیا ہےوہاں اس کی پالیسی یہودی اسرائیل کے مفادات کا تحفظ ہے۔ رپورٹ کے مطابق مشرقی یروشلم کو اپنے قبضہ میں لینے کے بعد وہاں مقیم فلسطینیوں کو شہریت دینے کے بجائے ’مستقل مقیم‘ کا درجہ دیاگیا مگر اس میں ’مستقل‘ محض نام کیلئے ہے کیوں کہ ۱۹۶۷ء کے بعد سے ۱۴؍ ہزار شہریوں کا ’’مستقل مقیم‘‘ کا درجہ ختم کردیا گیا۔اسی طرح ۳۵؍ بدو دیہاتوں کو جن میں ۶۸؍ ہزارفلسطینی آباد ہیں، اسرائیل نے تسلیم نہ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔یعنی یہ علاقے صرف پانی اور بجلی سے محروم ہیں بلکہ انہیں بار بار کی انہدامی کارروائی کا بھی سامنا رہتا ہے کیوں کہ حکومت انہیں تسلیم ہی نہیں کرتی۔