EPAPER
Updated: May 05, 2021, 4:39 PM IST
| Parvez Hafeez
الیکشن سے ذرا قبل سابق وزیر ریل دنیش ترویدی اور سابق راجیہ سبھا رکن متھن چکرورتی نے بھی ممتا کی پشت میں خنجر گھونپا اور بی جے پی میں شامل ہوگئے۔اتنے نامساعد حالات میں وہیل چیئرمیں ٹوٹی ٹانگ لے کر بیٹھی ایک ۶۵؍ سالہ خاتون کے لئے بی جے پی جیسی پارٹی اور آر ایس ایس جیسی تنظیم کا مقابلہ کرنا کتنا کٹھن ہوگا، آپ اس کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔
ممتا بنرجی نے وعدہ کیا تھا کہ’’ کھیلا ہوبے۔‘‘ زخمی ہونے کے باوجودوہ تن تنہا دلیری کے ساتھ آخری وقت تک بی جے پی کی طاقتور ٹیم کا مقابلہ کرتی رہیں اور میچ جیت کر ہی میدان سے باہر آئیں۔ممتا کے اس معرکتہ الارا گیم کے سامنے نریندر مودی اور امیت شاہ کا گیم پلان بالکل فیل ہوگیااور ان کا بنگال فتح کرنے کا خواب خواب ہی رہ گیا۔پچھلے ستر برسوں میں ملک کے کسی وزیر اعظم نے ایک صوبے میں اقتدار حاصل کرنے کیلئے اتنے جتن نہیں کئے تھے جتنے مودی نے بنگال میں کئے۔مودی جی اور شاہ نے مجموعی طور پر پچاس سے زیادہ ریلیوں اور روڈ شوز میں حصہ لیا۔ جن دو لیڈروں کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور ہے،انہوں نے پچھلے کئی ہفتوں تک دارلحکومت دہلی کو خیر باد کہہ کے بنگال میں ڈیرہ ڈال رکھا تھا۔ جس وقت ملک میں کورونا وائرس کی دوسری لہر سونامی بن رہی تھی اس وقت وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بنگال میں بی جے پی کی سیٹیں بڑھانےکیلئے سر گرداں تھے۔کیا فرائض منصبی سے یوں منہ موڑلینا مودی کیلئے مناسب تھا۔
امیت شاہ لگاتار ۲۰۰؍ سیٹیں جیتنے کا دعویٰ کررہے تھے۔ یہ الگ بات ہے ڈبل سنچری ممتا نے بنائی۔ترنمول کانگریس کی سیٹیں۲۰۱۶ء میں حاصل کی گئی سیٹیں (۲۱۱) سے تجاوز کرگئیں اورووٹ شیئر بھی ۴۵؍ فیصد سے بڑھ کر ۴۸؍ فیصد ہوگیاجو بی جے پی سے دس فیصد زیادہ ہے۔ پچھلے پانچ برسوں سے بی جے پی، آر ایس ایس کی مدد سے مغربی بنگال میں اقتدار حاصل کرنے کیلئےدن رات محنت کررہی تھی۔ دنیا کی امیر ترین سیاسی جماعت نے صوبے میں اپنی زمین مضبوط کرنے کیلئے کروڑوں خرچ کردیئے۔ پارٹی کے پاس مقبول عام لیڈر نہیں تھے تو اس نے حکمراں ترنمول کانگریس کے لیڈروں کو منہ مانگے دام دے کر خریدلیا۔ جنہوں نے بکنے سے انکار کیا،سی بی آئی، ای ڈی اور دیگر تحقیقاتی ایجنسیوں نے ان کا دماغ درست کردیا۔ درباری میڈیا اور آئی ٹی سیل کی مدد سے بی جے پی نے یہ فرضی بیانیہ تیار کیا گیاکہ ترنمول کانگریس کی شکست طے ہے کیونکہ صوبے کے عوام ممتا بنرجی سے اس قدر نالاں ہیں کہ انہوں نے بی جے پی کو اقتدار سونپنے کا تہیہ کرلیا ہے۔ممتا کو ہرانے کے لئے بی جے پی نے اپنی ساری طاقت جھونک دی۔مودی اور شاہ کے علاوہ دو درجن مرکزی وزراء، چھ وزرائے اعلیٰ اور متعدد ایم پیز بنگال کے کونے کونے کا دورہ کرتے رہے۔ جانب دار الیکشن کمیشن اور سنٹرل فورسز بھی بی جے پی کے اشارے پر کام کر رہی تھیں۔دو درجن ترنمول لیڈر پہلے ہی بغاوت کرچکے تھے۔ الیکشن سے ذرا قبل سابق وزیر ریل دنیش ترویدی اور سابق راجیہ سبھا رکن متھن چکرورتی نے بھی ممتا کی پشت میں خنجر گھونپا اور بی جے پی میں شامل ہوگئے۔اتنے نامساعد حالات میں وہیل چیئرمیں ٹوٹی ٹانگ لے کر بیٹھی ایک ۶۵؍ سالہ خاتون کے لئے بی جے پی جیسی پارٹی اور آر ایس ایس جیسی تنظیم کا مقابلہ کرنا کتنا کٹھن ہوگا، آپ اس کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔
ممتا نے صرف اپنا اقتدار نہیں بچایا، انہوں نے بنگال کو بچا لیا ہے۔ان کا یہ مشن بنگال کے جمہوریت پسند، سیکولرمزاج اور لبرل لوگوں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ لوگوں کو یہ ادراک ہوگیا تھا کہ بی جے پی کا اقتدار میں آنا صوبے کی تباہی کا باعث ہوگا کیونکہ ہندوتوا کا نظریہ بنگال کے بنیادی تہذیبی اور ثقافتی اقدار کے خلاف ایک منظم خطرہ ہے۔ اسی لئے سول سوسائٹی کا ایک طبقہ (جو ترنمول کا حمایتی بھی نہیں تھا) یہ اپیل لے کر سڑکوں پر نکل آیا کہ آپ جس پارٹی کو چاہیں ووٹ دیں لیکن بی جے پی کو ووٹ ہر گزنہ دیں۔ No vote to BJP اپنی طرز کی انوکھی عوامی تحریک تھی جس نے ممتا کی راہ آسان کردی۔مارچ کے وسط میں ممتا نے بھی ایک غیر معمولی قدم اٹھایا۔ انہوں نے کانگریس، شو سینا، عام آدمی پارٹی اور ڈی ایم کے جیسی پندرہ اپوزیشن پارٹیوں کے سربراہوں کو خط لکھ کر ان سے بی جے پی کے خلاف ایک مشترکہ محاذ تشکیل کرنے کی درخواست کی۔ اس خط کے چند دن قبل انہوں نے ایک اور انوکھا کام کیا۔ ممتا نے بایاں محاذ کے حمایتیوں سے براہ راست اپیل کی کہ وہ اپنا ووٹ ضائع نہ کریں اور بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روکنے میں ان کی حمایت کریں۔ لگتا ہے کہ ممتا کی اپیل کا اثر ہوا۔ نہ صرف بایاں محاذ بلکہ کانگریس کے روایتی ووٹروں نے بھی اپنا ووٹ ضائع نہیں کیا اور اس الیکشن میں ترنمول کی حمایت کردی۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۹۴؍ نشستوں والی صوبائی اسمبلی میں اس بار بایاں محاذ یاکانگریس کے ایک ایم ایل اے کو بھی جگہ نہیں ملی ہے۔ سی پی آئی (ایم) لیڈر بمان بوس نے اعتراف کیا ہے کہ کانگریس۔ بایاں محاذ اتحاد کی تباہ کن کارکردگی کی وجہ یہ ہے کہ لوگ بی جے پی کو شکست دینے کیلئےاس قدر بیتاب تھے کہ انہوں نے اپنے ووٹ ترنمول کو دے دیئے۔ دلچسپ بات یہ ہے ۲۰۱۹ء لوک سبھا الیکشن میں بایاں محاذ کے ووٹروں نے بی جے پی کوووٹ دیا تھا جس کے سبب بی جے پی نے ۱۸؍ سیٹیں جیت لی تھیں۔ صوبے کے ۲۷؍ فیصد مسلمانوں نے بھی سیاسی تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا ووٹ ممتا کی جھولی میں ڈال دیا۔ مرشدآباد، مالدہ اور دیناج پور جیسے مسلم اکثریت والے اضلاع کانگریس کا قلعہ مانے جاتے تھے جہاں دیدی کو ہمیشہ مایوسی ہوتی تھی۔ اس بار ترنمول کو وہاں ۴۷؍ میں ۳۷؍ سیٹیں مل گئیں۔لیکن صرف مسلمانوں کی حمایت سے ترنمول کو اتنی بڑی کامیابی نہیں مل سکتی تھی، صوبے کے جمہوریت پسند سیکولر ہندوؤں نے بھی بی جے پی کو مسترد کردیا۔ کولکاتا، ہوڑہ، ہوگلی، بردوان، بانکوڑہ، بیر بھوم، مشرقی اور مغربی مدنا پور اور جنوبی اور شمالی چوبیس پرگنہ جیسے اضلاع میں ہندوؤں نے ممتا کو ووٹ دیا۔ کولکاتا کی سولہ کی سولہ سیٹیں ترنمول کے حصے میں آئیں۔صوبے کے سات کروڑ بیس لاکھ ووٹروں میں ۴۹؍ فیصد خاتون ووٹرز ہیں۔ ممتا کا اصل ووٹ بینک یہ عورتیں ہیں۔
ممتا نندی گرام میں ہاری نہیں ہیں زبردستی ہرائی گئی ہیں۔ ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ سے بنگال کے الیکشن کے نتائج نہیں بدلنے والے ہیں۔ یہ نتائج اس بات کا ثبوت ہیں کہ نفرت پر محبت، شقی القلبی پر شفقت اورظلم پر ممتا کی ٹھنڈی چھاؤں کی جیت ہوئی ہے۔ یہ نتائج اس بات کا اعلان ہیں کہ بنگال کی اکثریت ننگی فرقہ پرستی اور آمریت کو قطعی برداشت نہیں کرسکتی ہے۔یہ نتائج اس بات کا بھی اعلان ہیں کہ بی جے پی ناقابل تسخیر نہیں ہے اور نہ ہی مودی اور امیت شاہ مافوق الفطرت صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ سو سال قبل گوکھلے نے کہا تھا بنگال جو آج سوچتا ہے وہ پورا ہندوستان کل سوچتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بنگال نے ۲۰۲۱ء میں جس طرح بی جے پی کے رتھ کو روک دیا ہے کیا پورا ہندوستا ن ۲۰۲۴ء میں یہ کارنامہ انجام دینے کیلئے تیار ہے؟