Inquilab Logo Happiest Places to Work

سماج کے دَبے کچلے طبقات کے ساتھ ہماراطرز عمل کیسا ہے اور کیسا ہونا چاہئے؟

Updated: February 04, 2022, 2:53 PM IST | Maulana Khalid Saifulah Rahmani | Mumbai

جو لوگ مظلوم ، دبے کچلے اور دبائے ہوئے ہوں، ان کی مدد کرنا مسلمانو ںکیلئے صرف سیاسی مصلحت نہیں بلکہ دینی اور ملی فریضہ بھی ہے، لیکن بد قسمتی سے ہم نے اس اہم کام کی طرف سنجیدہ توجہ اب تک نہیں دی ہے

 Muslims need to unite with other nations to fight injustice.Picture:INN
مسلمانوں کو دیگر اقوام کے ساتھ متحد ہوکر ناانصافی کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ تصویر: آئی این این

قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء جب بھی کسی قوم میں آئے، تو عام طور پر ان کا سابقہ دو طبقوں سے پیش آیا، ایک ’’ملأ قوم‘‘ یعنی قوم کے سر برآور دہ لوگ، جن کو باعزت اور بلند مرتبت سمجھا جاتا، دوسرے وہ لوگ جن کو قرآن نے ’’ ارا ذل قوم ‘‘ یا’’مستضعفین‘‘ سے تعبیر کیا ہے، یعنی قوم کے معمولی اور کمزور لوگ، جن کو سماج میں بے وزن اور کم حیثیت خیال کیا جاتا ہے۔ ہر نبی کی دعوت اپنی قوم میں ایک اجنبی دعوت کی حیثیت سے اُبھرتی تھی، قوم کے سربرآوردہ لوگ اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جاتے تھے؛ البتہ ان میں جو لوگ حقیت پسند اور نیک خو ہوتے تھے، وہ اپنی بڑائی کو قربان کر کے نبی کی دعوت پر لبیک کہتے تھے؛ لیکن ابتداء ً ان کی تعداد بہت کم ہوتی تھی۔ جو لوگ معمولی سمجھے جاتے ان کو دعوتِ حق قبول کرنے میں کوئی عار نہ ہوتا،  وہ پہل کرتے اور پھر ظلم و جور کی بھٹی میں تپائے بھی جاتے، غالباً یہ بھی نظام غیبی کے تحت ہوتا۔  چوںکہ وہ پہلے سے ظلم و ستم کا نشانہ ہوتے یا اُن کی کیفیت مظلوم و ستم رسیدہ کی ہوتی؛ اس لئے ان کے لئے ظلم و زیادتی اور تحقیر و تذلیل کا رویہ کسی درجہ میں قابل تحمل ہوتا۔دعوت حق کو قبول کرنے میں سردارانِ قوم ہی اصل میں رکاوٹ بنتے ہیں، اہلِ مکہ نے آپ ﷺکی کس قدر مخالفت کی، اس لئے نظامِ غیبی کے تحت غزوۂ بدر میں تمام سرداران مکہ جمع کر دیئے گئے، اور وہ سب بدر میں ہلاک ہوئے، اسی کو رسول اللہ ﷺنے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑے تمہارے سامنے ڈال دیئے ہیں۔ بدر کے بعد اہلِ مکہ کے دو ہی قابلِ ذکر سردار باقی رہ گئے،  ابوسفیان بن حرب اور صفوان بن اُمیہ ، اور ان دونوں نے فتح مکہ کے بعد اسلام کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا۔  مدینہ میں جو اسلام کی اشاعت آسانی کے ساتھ اورتیز رفتاری سے ہوئی،  تو اس کی ایک وجہ وہی تھی، جس کی طرف حضرت عائشہؓ نے اشارہ فرمایا ہے کہ آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے اوس و خزرج کی خانہ جنگی میں عبد اللہ بن ابی کے علاوہ صف ِاوّل کے تمام قائدین لقمۂ اجل بن چکے تھے؛ اس لئے یہاں اسلام کے خلاف مزاحمت کرنے والی کوئی منظم طاقت موجود نہیں تھی۔ عبد اللہ بن ابی نے اپنے اندرونی نفاق کے ذریعہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی؛ لیکن انصارِ مدینہ پر نشۂ ایمانی چڑھ چکا تھاکہ وہ کسی اور چیز کو خاطر میں نہیں لاتے تھے ، گویا خدا کے غیبی نظام کے تحت بعثت محمدی سے پہلے ہی سرداران مدینہ رخصت ہو چکے تھے اور مدینہ کی سرزمین اسلام کے لئے نرم و ہموار ہو چکی تھی ۔ یہی صورتِ حال مختلف انبیاء کرام کے ساتھ پیش آئی ہے۔حضرت نوح ؑ نے جب اپنی قوم کو حق کی طرف بلایا تو یہی (کمزور اور مظلوم لوگوں کا) طبقہ ان کی دعوت پر ایمان لایا۔ جو لوگ ان کے معاند تھے، وہ کہا کرتے تھے کہ: ’’کیا ہم تم پر ایمان لے آئیں حالانکہ تمہاری پیروی (معاشرہ  کے) انتہائی نچلے اور حقیر (طبقات کے) لوگ کر رہے ہیں۔‘‘  (الشعراء: ۱۱۱) شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی ؒ نے ’’ارذلون ‘‘ کا ترجمہ ’’ کمینہ ‘‘ سے کیا ہے، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ اس طبقہ کو کتنی حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ قرآن نے ایک اور مقام پر قومِ نوح کی اس تمسخر آمیز گفتگو کا ذکر کیا ہے کہ سرداران قوم نے حضرت نوحؑ سے کہا: ’’ ہمیں تو تم ہمارے اپنے ہی جیسا ایک بشر دکھائی دیتے ہو اور ہم نے کسی (معزز شخص) کو تمہاری پیروی کرتے نہیں دیکھا سوائے ہمارے (معاشرہ کے) سطحی رائے رکھنے والے پست و حقیر لوگوں کے ۔‘‘ (ہود:۲۷)ہم جس ملک میں رہتے ہیں، اس میں کچھ لوگوں نے اپنے آپ کو ’’ ملأ قوم‘‘ بنا رکھا ہے، اور لوگوں کے ذہن میں یہ عقیدہ بسا دیا ہے کہ وہ فرمانروائی اور حکمرانی ہی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں؛ کیوں کہ ان کی پیدائش خدا کے سر اور بازؤں سے ہوئی ہے، وہ خدا اور بندہ کے درمیان واسطہ ہیں۔ ایک بہت بڑی قوم کو انہوں نے پیدا ئشی غلام بنا رکھا ہے ، اور ان کے دل ودماغ میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ وہ نیچ اور کمتر ہیں، وہ دوسروں کی خدمت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ پہلا طبقہ برہمنوں اور اونچی ذات کے لوگوں کا ہے جن کا عددی تناسب بہت معمولی ہے؛ لیکن وہ ملک میں ۶۵؍ فیصد سے بھی زیادہ کلیدی عہدوں پر قابض ہیں اور اقتدار کے دروبام پر ان کا ایسا قبضہ ہے کہ کوئی پتہ ّ ان کی مرضی و منشاء کے بغیر حرکت نہیں کرپاتا۔ یہی قرآن کی اصطلاح میں اس ملک کے ملا ٔقوم ہیں، جن کا عمومی مزاج یہی ہے کہ جب تک حالات کے ہاتھوں مجبور نہ ہو جائیں عدل و انصاف اور سچائی کے سامنے سر خمیدہ نہیں ہوتے ۔ دوسرا طبقہ ’’ دلت ‘‘ کا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن میں ’’ارا ذل قوم‘‘ کی تعبیر آئی ہے کہ لوگ انہیں کم تر خیال کیا کرتے تھے۔ ہندوستان میں یہ قوم ہزاروں سال سے ظلم و جور کی چکی میں پسی جارہی ہے اور انتہائی غیر انسانی رویہ کا شکار ہے۔ اب جبکہ سیاسی مصلحتوں کے تحت کسی قدر ان کی آؤ بھگت ہو رہی ہے، انہیں تحفظات دیئے جار ہے ہیں، الیکشن کے موقع پر انہیں منانے کی کوشش کی جاتی ہے، پھر بھی سماجی زندگی میں وہ ایک باعزت قوم کا مقام و منصب حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ اگر وہ گھڑے کو ہاتھ لگادیں تو اس پانی کو پھینک دیا جاتا ہے ، وہ اونچی ذات کے کسی شخص کے دوش بدوش بیٹھ کر کھانہیں سکتے، اس ملک میں اعلیٰ ترین انتظامی قابلیت رکھنے کے باوجود جگ جیون رام ملک کے وزیر اعظم نہیں بن سکے؛ اس پوری تفصیل سے ہمارے قارئین آگاہ ہیں۔ قارئین یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے تعلق سے کتنی حقارت کا مظاہرہ عام طور پر کیا جاتا ہے اور اُن کی کتنی تذلیل کی جاتی ہے۔ جو لوگ مظلوم، دبے کچلے  اور دبائے ہوئے ہوں، ان کی مدد کرنا مسلمانو ںکیلئے صرف سیاسی مصلحت نہیں بلکہ دینی اور ملی فریضہ ہے؛ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’تمہیں کیا ہوا کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان لوگوں کے واسطے نہیں لڑتے، جو مغلوب ہیں، مرد، عورتیں اور بچے۔‘‘ (النساء: ۷۵)قرآن نے یہاں مغلوبوں کے لئے ’’ مستضعفین‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، یعنی وہ لوگ جن کو دبایا گیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ دلت بھی اس ملک کے ’’ مستضعفین‘‘ ہیں تو شاید بے جانہ ہو؛ اس لئے ان کو ساتھ لینا اور ان کے بشمول سماج کے دیگر کمزور طبقات کے ساتھ حقیقی انصاف نہ کرنے والوں کو مشترک تدبیر کے ذریعہ ظلم سے باز رکھنا ہمارا اسلامی فریضہ ہے۔ بد قسمتی سے ہم نے اس پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ نہیں دی؛ بلکہ سماج کے اعلیٰ طبقات سے متاثر ہو کر ان کے ساتھ کم و بیش وہی رویہ اختیار کیا؛ بلکہ ہم نے خود اپنی قوم میں بھی مختلف دیواریں کھڑی کرلیں۔ بعض اوقات یہ دیواریں اتنی اونچی ہو جاتی ہیں کہ پاس کا آدمی نظر نہیں آتا۔ اس صورت حال نے ہمیں دُہرا نقصان پہنچایا ہے،  ایک تو اس ملک میں دعوتِ اسلام کا کام نہ ہونے کے درجہ میں ہے، اگر ہم اس طبقہ سے قریب ہوتے تو دعوت کے وسیع مواقع پیدا ہو سکتے تھے۔ ہر قوم میں دعوتِ حق کی فطری ترتیب یہی رہی ہے کہ پہلے ایسے مستضعفین نے اس پر لبیک کہا ہے، پھر جب ان کی بہت بڑی تعداد نے اسلام قبول کر لیا تو بالآخر جو طبقہ انہیں حقیر گردانتا تھا، اس کے لئے بھی حلقہ بگوش اسلام ہونے کے سوا چارہ نہیں رہا۔ پہلے مکہ کے غلاموں نے اسلام قبول کیا، پھر اہلِ مدینہ نے، آخر ایک وقت ایسا آیا کہ سردارانِ مکہ بھی اسلام لانے پر مجبور ہوئے۔ 
اسلام کی بنیادی تعلیم وحدتِ الہ اور وحدتِ انسانیت ہے، یعنی خدا ایک ہے اور تمام انسانیت ایک ہے۔ کالے،  گورے، عربی، عجمی کی کوئی تفریق نہیں۔ ایک ہی مسجد میں سب کو خدا کی عبادت کرنی ہے۔ جو شخص دین سے زیادہ واقف اور عمل کے اعتبار سے زیادہ صاحبِ تقویٰ ہو،  وہ نماز میں امام ہوگا، خواہ کسی خاندان کا ہو اور اس کی چمڑی کا رنگ کیسا بھی ہو۔ یہ انسانی مساوات کا تصور اتنا فطری اور مبنی بر انصاف ہے کہ جن قوموں کو نیچ سمجھا جاتا ہے وہ اس کو اپنے لئے بہت بڑی رحمت باور کرتی ہیں۔  اگر اس عظیم اسلامی اُصولِ کو ان محروم و مظلوم لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا تو ممکن نہیں تھا کہ وہ اس سے متاثر نہ ہوتے اور اس ابر ِرحمت کے سایہ میں آنے سے انکار کرتے، مگر افسوس کہ ہم نے کبھی سنجیدگی سے اس کام کی طرف توجہ نہیں دی ۔اس سے دوسرا نقصان سیاسی ہوا۔ آج سیاسی اعتبار سے ہم خود اچھوت ہوگئے ہیں، ہماری آبادی کے تناسب اور قومی اداروں میں ہماری تعداد کے درمیان کوئی نسبت نہیں  ہے۔ اگر مسلمان اس طبقہ کو اپنے ساتھ لینے میں کامیاب ہو جاتے، جن کی تعداد ملک میں ساٹھ، پینسٹھ فیصد سے کم نہیں ہے، تو اگر ہم بادشاہ نہیں ہوتے تو بادشاہ گر ضرور ہوتے۔ جو لوگ اس ملک میں مسلمانوں کے خلاف فسادات کراتے ہیں اور فسادات کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، وہ کمزور اور ستم رسیدہ طبقات  ہی کو اپنا ہتھیار اور آلۂ کار بناتے ہیں۔ اگر ہم انہیں قریب کر لیں تو صورت حال بالکل مختلف ہو۔وقت ابھی بھی گیا نہیں ہے، اور ہمیں اس پہلو پر پوری گہرائی کے ساتھ سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں ایک منصوبہ کے ساتھ اس طبقہ کو قریب کرنا چاہئے، مسلمان قائدین اور سیاسی تنظیموں کو چاہئے کہ دلت سیاسی و سماجی قائدین کے ساتھ تبادلۂ خیال کریں، انہیں قریب کریں  اور ان کی ذہن سازی کریں۔ یہ وقت کی نہایت اہم ضرورت ہے۔ ہمارا مقصد اپنے ساتھ اُن کا مفاد اور اُن کے مفاد کے ساتھ اپنا مفاذ جوڑنا ہو کہ دونوں ہی قومیں معاشی طور پر بے حد کمزور اور سماجی و سیاسی اعتبار سے حاشئے پر ہیں۔ سماجی سطح پر بھی دلت طبقہ سے رابطہ استوار کرنا ضروری ہے۔ مسلمان خوشی و غم کے مواقع پر ایسی تقریب رکھیں، جن میں انہیں مدعو کریں، شادی بیاہ کے موقع پر انہیں تحفہ دیں اور مسلمانوں کے زیر ِانتظام اسکولوں میں انہیں داخلے دیا کریں۔ اس کے علاوہ، مزید جو کچھ ممکن ہو ان کے ساتھ رعایت کریں، دعوتوں میں ان کے ساتھ کھائیں، پئیں، ان کو بھائی، بہن، چچا، خالہ کہہ کر مخاطب کریں۔  ایسے الفاظ کے ساتھ ان سے خطاب نہ کریں، یا ان کا ذکر نہ کریں جن سے تذلیل و تحقیر کی بو آتی ہو۔ موقع بہ موقع اسلام کی مساوات کی تعلیم کو ان کے سامنے رکھیں، اگر ہم اپنے رویہ کو ان کے ساتھ درست کرلیں، تو ان شاء اللہ وہ جلد اور بہت آسانی سے قریب آ سکتے ہیں۔  ایک ایسی قوم جو انسان تسلیم کئے جانے کے لئے جد و جہد کر رہی ہے اور اپنے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ چاہتی ہے، اس سے تھوڑی سی محبت بھی دل جیتنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔چنانچہ ضروری ہے کہ ہم اس معاملہ کی اہمیت کو سمجھیں اور ایک ٹھکرائی ہوئی قوم کو سینہ سے لگائیں  اور اسے محبت، اپنائیت اور عزت و احترام کی سوغات دیں۔ اس میں ہماری جان و مال، عزت و آبر و اور سیاسی حقوق کا تحفظ ہے۔ اس میں دعوت ِ دین کے بھرپور امکانات بھی ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK