EPAPER
Updated: January 28, 2022, 1:29 PM IST
| Qazi Mohammad Riyaz Armaan Qasmi
دارالقضا کی یہ بڑی حصول یابی ہے کہ معاشرہ میں پھیلی ہوئی آپسی ناچاقی، بغض وعداوت اور اختلافات کو بڑے ہی حکمت اور آسانی کے ساتھ کم خرچ اور کم وقت میں آپسی رضامندی سےحل کر دیا جاتا ہے،اور مزید بگاڑ پیدا ہونے سےمعاشرہ کو بچالیاجاتاہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں صلح کو خیر کہا ہے۔ دو گروہ آپس میں جھگڑ پڑیں توصلح کرانے کی تاکید آئی ہے۔ اسی طرح میاں بیوی کے درمیان نزاع کی صورت پیدا ہو جائے، تو بھی حکم دیا گیا کہ اولاً میاں بیوی خود ہی صلح کر لیں، صلح نہ ہو سکے تو دونوں خاندانوں سے حَکم متعین کئے جائیں اور وہ صلح کی کوشش کریں تاکہ نکاح کے ذریعہ جو مقدس رشتہ وجود میں آیا ہے ،اس کو بچایا جاسکے۔ ہمارے ملک کے اکثر صوبوں میں مسلمانوں کے آپسی نزاع کو حل کرنے کے لئے دارالقضاء ،اور محاکم شرعیہ کا نظام قائم ہے۔ قوم و ملت کے دانشوران اور خاندان و معاشرہ کے بااثر افراد اصلاحِ حال کی کوشش کرتے ہیں۔ بڑے شہروں میں بہت سے کاؤنسلنگ سینٹرزبھی قائم ہیں۔ حکومتی سطح پرہر چھوٹے بڑے شہروں اور قصبات میں مہیلا منڈل بھی ہوتے ہیں،سرکاری عدالت کے وکلاء بھی اس سلسلہ میں اپنی دلچسپی کا مظاہر ہ کرتے ہیں۔ بسا اوقات مساجد میں ائمہ بھی خانگی معاملات میں صلح کی کوشش کرتے ہیں حتیٰ کہ ہماری عدالتیں بھی آپسی صلح و آشتی کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں ۔ اس وقت ہمارے پیش نظر دارالقضا کہلانے والے اداروں اور محاکم شرعیہ کے ذریعہ ہونےوالی صلح اور ان کی کارکردگی ہے۔ خاندان میں اختلاف ہو جائے، چاہے وہ میاں بیوی کا اختلاف ہو، یا بھائی بہنوں کے درمیان حصول وراثت یا تقسیم وراثت کا اختلاف ہو، یا دوا فراد کے درمیان مالیات یعنی قرض، پراپرٹی، تجارت یا آپسی لین دین کا اختلاف ہو ، غرض کہ کسی بھی طرح کا اختلاف ہو، اس کو دارالقضاء سے حل کرنے کی مثبت کوشش کی جاتی ہے۔ اس کی چند صورتیں ہوتی ہیں
صلح بتراضی طرفین کا طریقہ
فریق اول اپنا معاملہ قاضی شریعت کے پاس یا محکمہ شرعیہ کے متعینہ افراد کے پاس درخواست کی شکل میں پیش کرتا ہے ،پھر فریق دوم کو اس درخواست کی نقل بھیجی جاتی ہے،اوراس پر لگائے گئے الزامات کی وضاحت طلب کی جاتی ہے۔فریق دوم کی طرف سے وضاحت آجانے کے بعد دونوں فریق کو ایک ساتھ بٹھا کر قاضی محترم، اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کی روشنی میں معاملہ سے متعلق اصلاحی گفتگو کرتے ہیں ، فریقین کا موقف پورے صبر وضبط سےسنتے ہیں اور فریقین کو نقطہ ٔاتحاد پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر فریقین کسی ایک بات پر متفق ہو جائیں تو ایک تحریر بنا دی جاتی ہے جس میں فریقین کےگو اہان اور قاضی شریعت کے دستخط اور مہر ثبت ہوتے ہیں ۔
صلح مابین زوجین
معاملہ میاں بیوی کا ہو اور فریقین کسی ایک بات پر متفق ہوں توصلح نامہ بنا دیا جاتا ہے ۔اگر متفق نہ ہوں ،تو ان سے صلح کے تعلق سے ان کی شرطیں معلوم کی جاتی ہیں۔ دونوں فریق اپنی اپنی شرطوں کو لکھ کر دیتے ہیں، پھر قاضی صاحب ان پر غور کرتے ہیں۔ اگر وہ شرائط شریعت کے مطابق ہوتی ہیں، تو ان کو صلح کی شقوں میں درج کر دیا جاتا ہے، اگرکوئی شرط غیر شرعی ہو ، تو فریقین سے بات کر کے اس کی وضاحت کی جاتی ہےاور فریقین کو ایسی شرطوں سے دستبردار ہو نے کی ہدایت کی جاتی ہے، پھر ان کی مرضی سے متفقہ شرطوں کے ساتھ صلح کی تحریر لکھی جاتی ہے۔
صلح کی تحریر کا خلاصہ
میاں بیوی کے تنازعات میں عموماً یہ صورت ہو تی ہے کہ وہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا نہیں ۔اگر ساتھ رہنا چاہتے ہیں، تو ایسا صلح نامہ بنا یا جاتا ہے، جس میں درج ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے حقوق واجبہ کو ادا کریں گے ، کسی بھی طرح کی جسمانی اور ذہنی تکلیف نہیں دیں گے ، گالم گلوچ اور آپسی مارپیٹ سے پرہیز کریں گے، فریقین ایک دوسرے کے خاندان والوں کی عزت واحترام کریں گے ،اور فریقین کے خاندان والے دونوں کی نجی زندگی میں کسی بھی طرح کی مداخلت نہیں کریں گے، بلکہ ازدواجی زندگی کے گزارنے میں اپنا تعاون پیش کریں گے۔
صلح بذریعہ تحکیم
صلح کی ایک شکل تحکیم کی ہوتی ہے۔ میاں بیوی کے درمیان اختلاف کی صورت میں قاضی ٔ شریعت فریقین کے قریبی رشتہ داروں میں سے ایک یا دو لوگوں کو حکم متعین کرتے ہیں، اوران کو صلح کا طریقہ بتاتےہیں۔حکم حضرات میاں بیوی کے درمیان صلح کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں۔ چونکہ خاندان کے لوگوں کا اثر فریقین پر ہوتا ہے، اس لئے فریقین ان کو اپنا ہمدرد خیال کرتے ہیں نیز خاندان کے لوگوں سے بہت سے معاملات میں ضرورت پڑتی رہتی ہے، اس لئے ان کی بات کو نظر انداز کرنا عموماً مشکل ہوتا ہے۔ لہٰذا تحکیم کے ذریعہ صلح کا ہونا آسان ہو جاتا ہے۔ البتہ خاندان کے لوگ اپنی ذمہ داری میں کوتاہی کرتے ہیں جس سے بسااوقات صلح ہونے کے بجائے نزاع کی شکل پید ا ہو جاتی ہے۔ حکم جس کے رشتہ دار ہوتے ہیں اس کی طرف داری کرتے ہیں ، یا اس کا لحاظ رکھتے ہیں، جس سے معاملہ اور الجھ جاتا ہے ،جب کہ حکم کا کام یہ ہے کہ وہ کسی بھی فریق کی طرف دار ی نہ کرے ،بلکہ عدل سے کام لے،جس کی زیادتی اور غلطی ہو، اس کی نشاندہی کی جائے اور اس کو اس کی غلطی سے باز رہنے کی تلقین کی جائے اور اپنے خاندانی اثر و رسوخ کا استعمال کر کے دونوں فریق کو صلح پر آمادہ کریں۔ صلح پر آمادہ ہونے کی صورت میں صلح نامہ بنایا جاتاہے ۔
فریقین نے پہلے سےطے کر رکھا ہو کہ ساتھ نہیں رہنا ہے، اور قبیلہ و خاندان کے بااثر افراد کی اصلاح حال کی کوشش بار آور نہ ہو سکی ہو، تو میاں بیوی کا معاملہ خلع و مبارات کے ذریعہ حل کیا جاتا ہے۔ ملکی حالات کی بناء پرعام طور پر مرد ایک ساتھ نہ رہنے کی صورت میں طلاق دینے سے گریز کرتا ہے اور عورت بھی بذات خود خلع لینے سے گریز کرتی ہے تاکہ اس کو دوسری شادی میں دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے، اور اس پر یہ الزام نہ آئے کہ اس نے ازدواجی زندگی میں عدم برداشت سے کام لیا ، اور خلع لے کر علاحدگی اختیار کر لی۔
علاحدگی بذریعہ مبارات
ایسی صورت میں فریقین کے معاملہ کو مبارات کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس میں فریقین میں سے ہر ایک، دوسرے کو نکاح سے متعلق حقوق سے بری کر دیتا ہے ۔ عموماً خلع یا مبارات میں فریقین آپسی حسد وبغض اور انتقامی کارروائی کے طور پر اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ خلع یا مبارات کی وجہ لکھی جائے، تاہم شریعت مطہرہ کا مزاج برائی کو دبانے کا ہے، نہ کے پھیلانے کا؛ لہٰذا قاضی حضرات علاحدگی کی وجہ کو نہیں لکھتے ہیں ، تاکہ مستقبل میں ہرفریق شر سے محفوظ رہ سکے۔
علاحدگی بذریعہ خلع
میاں بیوی میں علاحدگی خلع یا مبارات کے ذریعہ ہو تو خلع نامہ میں کچھ ایسی شقیں بھی درج کی جاتی ہیںجن سے فریقین مستقبل میں نکاح کے تعلق سے ایک دوسرے کے شر سے مکمل طور پر محفوظ رہ سکیں۔ چونکہ خلع اور مبارات کی کوکھ سے بہت ساری پریشانیاں جنم لیتی ہیں اس لئے بوقت خلع ہی ان کے تدارک کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلاً خلع کے وقت سامان جہیز ، زیورات اور مالی لین دین کا مسئلہ سر ابھارتا ہے، اسی طرح فریقین کی اولاد ہو تو ان کی پرورش اور تعلیم و تعلم کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے، نیز بچوں کی عمر کے لحاظ سے بھی علاحدگی کا معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ مردسوچتا ہے کہ اگر یہ میری نہ رہی تو کسی جگہ بھی خوش نہ رہ سکے، لہٰذا مرد بچوں کو لینے پر بضد ہوتا ہے، اور کبھی عورت کسی بھی حال میں بچوں کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتی۔ اگر ایک فریق بچہ کو اپنے پاس رکھ لے تو دوسرے فریق کو ملاقات اور بات کرنے نہیں دینا چاہتا۔ حالانکہ رشتہ ٔ نکاح میاں بیوی کا ختم ہوتا ہے، ماں باپ کا رشتہ بچوں سے ختم نہیں ہوتا،بچے ہر صورت میں ماں باپ کے ہوتے ہیں۔ قیامت تک اور مابعد قیامت بھی بچے اپنے ماں باپ ہی کی طرف منسوب ہوں گے، اس لئے ساتھ ساتھ بچوں کے معاملہ کو بھی حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور شرعی حدود کی پوری رعایت رکھی جاتی ہے ۔ دارالقضاء میں آئے ہوئے معاملات میں سے ۹۵۔۹۰؍ فیصد معاملات صلح کی مذکورہ شکلوں کے ذریعہ ہی حل ہو جاتے ہیں ،۵؍یا ۱۰؍فیصد معاملات ہی ایسے ہوتے ہیں ، جن میں صلح نہیں ہو پاتی ۔ بہر حال دارالقضاؤں کی یہ بڑی حصول یابی ہے کہ معاشرہ میں پھیلی ہوئی آپسی ناچاقی، بغض و عداوت اور اختلافات کو حکمت اور آسانی کے ساتھ کم خرچ اور کم وقت میں آپسی رضامندی سےحل کر دیا جاتا ہے اور مزید بگاڑ پیدا ہونے سےمعاشرہ کو بچالیا جاتا ہے۔