Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہمارے موضوعات کیا ہیں، کیا ہونے چاہئیں؟

Updated: February 06, 2022, 9:57 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

جو اصل موضوعات ہیںنہ تو وہ زیر بحث آتے ہیں نہ ہی عوام اُن کے تعلق سے فکرمند ہوتے ہیں۔ جو اصل نہیں ہیں اُن پر طومار باندھا جاتا ہے اور عوام بھی انہی میں دلچسپی لیتے ہیں۔ دیگر ملکوں میں ایسا نہیں ہوتا۔

nirmala sitharaman
نرملا سیتا رمن

ایک اور بجٹ آیا اور چلا گیا۔ اس پر چند روز باتیں ہوئیں، ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ مبصرین کی رائے کیا ہے، وہ معیشت کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ اس میں دو باتیں خاص طور پر سامنے آئیں۔ پہلی یہ کہ حکومت ٹیکس عائد کررہی ہے اور اپنا خرچ بڑھا رہی ہے جس سے مالیاتی خسارہ بڑھ رہا ہے۔ دوسری یہ کہ مراعات اور سبسیڈی بھی دی گئی ہے۔ بجٹ ایسی ہی باتوں کیلئے ہوتا ہے اور اس سے ایسی ہی باتوں کی توقع بھی کی جاتی ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ ملک کے سیاسی مباحث میں معیشت کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ یہ انتخابی مباحث کا بھی حصہ نہیں بنتی۔ ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ خراب معاشی کارکردگی اور شرح نمو میں اضافہ نہ کرنے کی حقیقت سے حکمراں جماعت کا کچھ نہیں بگڑتا۔ یہ کوئی نیا رجحان نہیں ہے۔ دہائیوں پہلے بھی  ہماری شرح نمو بہت کم تھی۔ نہرو اور اندرا کے زمانے میں  یہ ۳؍ فیصد تھی۔ اس کے باوجود طویل عرصہ تک یہ شخصیات اور ان کی پارٹی برسراقتدار رہی۔ 
 اس سے ملتا جلتا رجحان روزگار کا ہے۔ کسی اور کے نہیں بلکہ حکومت ہی کے ڈیٹا کے مطابق، روزگار کی فراہمی کے معاملے میں ہندوستان جنوبی ایشیاء میں سب سے پیچھے ہے۔ اس معاملے میں ہمارا شمار عالمی سطح پر کمترین فیصد والے ملکوں میں ہوتا ہے۔ یہ اُن لوگوں کا فیصد ہے جن کی عمر ۱۵؍ سال سے زائد ہے اور جو یا تو برسرکار ہیں یا کام کی تلاش میں ہیں۔ امریکہ میں ایسے لوگوں کا فیصد ۶۸، تھائی لینڈ میں ۷۰ اور چین نیز ویتنام میں کم و بیش ۷۵؍ فیصد ہے۔ ہندوستان میں یہ ۴۰؍ فیصد ہے جو پاکستان سے بھی کم ہے حتیٰ کہ افغانستان سے بھی کم۔ واضح رہے کہ یہ بے روزگاری یا روزگار کی فراہمی کا فیصد نہیں بلکہ کام کرنے کے قابل ہونے، کام کرنے اور کام کی تلاش میں ہونے والوں کا فیصد ہے۔ یہاں اس فیصد کو زیادہ ہونا چاہئے تھا (جیسا کہ بے روزگاری کے منظرنامے سے ظاہر ہے) مگر مشکل یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے کام کی تلاش ہی ترک کردی ہے کیونکہ اس میں کامیابی نہیں ملتی اور محرومی ہی ہاتھ لگتی ہے۔ منریگا کے ذریعہ کام پانے والوں کی تعداد آج جتنی ہے وہ ۲۰۰۴ء کے مقابلے میں ۴؍ گنا زیادہ ہے اس کے باوجود یہ اسکیم زیادہ فائدہ مند نہیں ہورہی ہے کیونکہ حکومت کے پاس پیسہ نہیں ہے۔ لیبر مارکیٹ میں افراد کی تعداد کم ضرور ہے مگر جو لوگ کام کی تلاش میں ہونے کے باوجود محروم ہیں، اُن کی تعداد ۲۰۱۸ء میں ۶؍ فیصد پہنچی اور اس کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوا۔ 
 حکومت ہی کا ڈیٹا یہ بھی بتاتا ہے کہ جنوری ۲۰۱۸ء سے جی ڈی پی کی شرح کم ہونے لگی تھی۔ یہ کیفیت وبائی دور کے آغاز سے پہلے ۲؍ سال ۳؍ ماہ تک برقرار تھی۔ اس کے بعد وبائی حالات شروع ہوئے تو معیشت بحران سے دوچار ہوگئی۔ اگر اس سال ہم نے بہتر معاشی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تب بھی ہم وہیں پہنچ سکیں گے جہاں دو سال پہلے تھے۔
 مجموعی طور پر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ملک کی معیشت اور شہریوں کو روزگار فراہم کرنے کی اس کی صلاحیت طویل عرصے سے مشکلات سے دوچار ہے۔ اس کے باوجود یہ مسئلہ ہمارے سیاسی مباحث کا حصہ نہیں بن رہا ہے چنانچہ حکمراں جماعت پر جوابدہی کیلئے کوئی دباؤ نہیں ہے۔ اپوزیشن بھی معاشی مسائل اور بے روزگاری کے موضوع پر عوام کو بیدار کرنے اور اُن کی پُرزور حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ جو تھوڑی بہت مزاحمت ہوئی وہ بے ساختہ ہوئی مثلاً چند سال پہلے کا پاٹی دار آندولن اور حالیہ دنوں کا ریلوے میں بھرتیوں کے مسئلہ کے خلاف طلبہ کا سڑکوں پر آنا۔ اپوزیشن کی کوشش ہے کہ سیاسی و انتخابی مباحثے کو ہندو مسلم سے ہٹائے اورمعاشی مسائل نیز بے روزگاری پر مرکوز کرے مگر وہ کامیاب نہیں ہے۔ آپ جاننا چاہیں گے کہ کیا اپوزیشن کی صلاحیت کم ہے یا کوئی اور وجہ ہے تو اس کا ایک جواب وہ ہے جو این ڈی ٹی وی کے اینکر رویش کمار نے دیا۔ وہ یہ کہ ان مسائل میں میڈیا کی دلچسپی بالکل نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر میڈیا خود کو صرف دو ہفتے بے روزگاری کے موضوع پر مرکوز کرلے تو حکومت مجبور ہوجائیگی کہ اُن نوجوانوں کی سنے جو سڑکوں پر ہیں۔
 یہ ایک وجہ ضرور ہے مگر یہ واحد وجہ نہیں ہے کیونکہ دور حاضر میں سوشل میڈیا کے ہوتے ہوئے مین اسٹریم میڈیا کی بہت زیادہ ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔ اب سے پندرہ سال پہلے تک یہ کیفیت نہیں تھی۔ آج میڈیا نہیں تو سوشل میڈیا! عوام تک پہنچنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ اس لئے میڈیا کے منہ موڑ لینے کی بات درست ہے مگر معاملہ اتنا ہی نہیں ہے بلکہ گہرائی میں سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔ اصل میں ملک کے رائے دہندگان کو معاشی مسائل، حکومت کی خام کارکردگی، روزگار پیدا کرنے میں ناکامی اور مجموعی طرز حکمرانی سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ اگر فرق پڑتا بھی ہے تو تھوڑا بہت۔ اُن میں سے بیشتر کیلئے مندر کا تعمیر کیا جانا، حجاب پہننے والی طالبات کا روکا جانا اور مجسموں کا نصب کیا جانا وغیرہ کی زیادہ اہمیت ہے، وہ ان معاملات میں خاصے حساس اور جذباتی ہیں۔ روزگار اُس وقت اہم بنتا ہے جب کوئی شخص یا نوجوان جو عوام میں متحرک ہے، کوئی مہم چلاتا ہے جیسے گجرات میں ہاردک پٹیل۔ ایسے کسی شخص کے ساتھ بھی وہی لوگ جڑتے ہیں جو مسئلہ سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ تب ہی انہیں کسی ہاردک پٹیل کی آواز اپنے دل کی آواز محسوس ہوتی ہے۔ بہ الفاظ دیگر، ہمارے یہاں اُن موضوعات کی اہمیت نہیں ہے یا کم ہے جو دیگر ملکوں کیلئے خاصے اہم ہیں۔ جن موضوعات سے حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی ہیں اور جو سیاسی و انتخابی مباحث کا کلیدی موضوع ہوتے ہیں یا ہونے چاہئیں ہمارے ملک میں اُن پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔
 یہ حقیقت غوروخوض چاہتی ہے کہ ہم بحیثیت رائے دہندگان اور بحیثیت قوم چاہتے کیا ہیں؟ کیا ہم انہی موضوعات کو اہمیت دیتے رہیں گے جن سےترقی اور خوشحالی کا کوئی تعلق نہیں ہے یا ان موضوعات کی طرف آنا چاہیں گے جن سے مستقبل وابستہ ہے؟ n  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK