Inquilab Logo Happiest Places to Work

اب آئے گا کھیل کا مزہ

Updated: March 24, 2021, 12:53 PM IST | Parvez Hafiz

جہاں تک ممتا کا سوال ہے تو وہ میدان چھوڑ کر بھاگنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ وہ تن تنہا ملک کے وزیر اعظم، وزیر داخلہ، کئی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ، درجنوں اراکین پارلیمنٹ اور دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے دولتمند پارٹی کا مقابلہ کررہی ہیں۔ اپنے اس عزم و استقلال کے مظاہرے کے لئے وہ بار بارمودی جی کو یہ باور کرارہی ہیں کہ’’ اطمینان رکھئے شریمان کھیلا ہوبے۔‘‘

Mamata Banerjee - Pic : PTI
ممتا بنرجی ۔ تصویر : پی ٹی آئی

خود اعتمادی اور خوش فہمی میں فرق ہے لیکن اقتدار کے نشے میں بی جے پی اس فرق کو فراموش کربیٹھی ہے۔ انتخابی مہم کے دوران ہر پارٹی اپنی فتح کا دعویٰ کرتی ہے۔ جب نریندر مودی یہ فرماتے ہیں کہ ان کی پارٹی ترنمول کانگریس کو شکست دے کر بنگال میں اقتدار حاصل کرے گی تو اسے ان کی خود اعتمادی کہا جاسکتاہے لیکن جب امیت شاہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مغربی بنگال میں اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی حکومت اپنی پہلی کابینہ میٹنگ میں ہی متنازع شہریت قانون سی اے اے کے نفاذ کے فیصلے کو منظوری دے گی تو اسے ان کی خوش فہمی کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔در اصل بی جے پی قیادت نے الیکشن کے کافی قبل بڑی محنت اور چالاکی سے اور تابعدار میڈیا کی بھر پور مدد سے یہ بیانیہ تخلیق کیا کہ اس بار بنگال میں کمل کا پھول کھل کر رہے گا اور امیت شاہ نے اس بیانیہ میں اثر آفرینی پیدا کرنے کی خاطر یہ شوشہ بھی چھوڑ دیا کہ بی  جے پی ۲۹۴؍ میں سے ۲۰۰؍ سے زیادہ سیٹوں پر قبضہ کرنے جارہی ہے۔
 اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی کا یہ بیانیہ بڑی حد تک کام کرگیا۔ یاد رکھیں  کہ ۲۰۱۱ء کے اسمبلی انتخابات میں جب ممتا نے ۳۴؍سالہ بایاں محاذ حکومت کو اکھاڑ پھینکا تھا، بی جے پی اپنا کھاتہ تک نہیں کھول سکی تھی۔ اگر وہی بی جے پی صوبے میں اقتدار کے سپنے دیکھ رہی ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ محض دس برسوں میں بنگال میں پارٹی کی طاقت اور مقبولیت میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔پھر بھی اگر آج زمینی حقائق کا ٹھنڈے دماغ سے جائزہ لیا جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں ہوگا کہ بی جے پی کی پوزیشن اتنی اچھی نہیں ہے جتنی گودی میڈیا آپ کو دکھا رہا ہے۔ اگر یہ سچ ہے کہ پارٹی اقتدار کی دہلیز تک پہنچ چکی ہے تو اسے امیدوار کیوں نہیں مل رہے ہیں؟ قلت ایسی ہے کہ بی جے پی کو ۱۵۰؍   امیدوار ترنمول، سی پی آئی ایم اور کانگریس سے درآمد کرنے پڑے ہیں۔پارٹی کے دیرینہ کاڈرز اس گھس پیٹھ سے کس قدر خفا ہیں اس کا اندازہ آپ کو پورے صوبے میں بی جے پی دفاتر میں تباہ شدہ کمپیوٹرز، ٹوٹی کرسیوں اور پھٹے بینرز سے بخوبی ہوجائے گا۔ بی جے پی لوگوں کو بنا مانگے اور بنا بتائے ٹکٹ کے چھوہارے تقسیم کررہی ہے۔ اگر پارٹی اقتدار کے اتنے قریب ہوتی تو لوگ اپنی نامزدگی کے اعلان کے بعد بھی بی جے پی کے ٹکٹ کیوں ٹھکراتے؟اگر پارٹی اقتدار کے اتنے ہی قریب ہے تو وزیر اعظم کو سر حد کے اس پار جا کر’’ووٹروں کو لبھانا‘‘کیوں پڑتا؟ ذرائع ابلاغ کے مطابق نریندر مودی جو بنگلہ دیش کی پچاسویں سالگرہ میں شرکت کرنے ڈھاکہ جارہے ہیں،دو سو کلو میٹر دور اوراکانڈی میں واقع متووا برادری کے بانی کے مندر میں خراج عقیدت پیش کرنے جائیں گے تاکہ بنگال کے مختلف اضلاع میں بسے ہوئے لاکھوں متووا ووٹروں کی حمایت حاصل سکیں۔ صوبے کی چالیس اسمبلی سیٹوں میں امیدواروں کے مقدر کا فیصلہ متووا ووٹروں کے ہاتھ میں ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ مودی جی جس دن متووا مندر جارہے ہیں اسی دن بنگال میں پہلے مرحلے کی ووٹنگ ہونے والی ہے؟
 بی جے پی ہیڈ لائن مینجمنٹ میں ماہر ہے اور اس نے یہ ہّوا بنادی ہے کہ پورا بنگال زعفرانی رنگ میں رنگ چکا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو امیت شاہ، یوگی آدتیہ ناتھ اور نڈا جیسے اسٹار اسپیکرز کی ریلیوں میں لوگوں کی بھیڑ اکٹھاکیوں نہیں ہورہی ہے؟ اگر پورے بنگال میں مودی لہر چل رہی ہے تو بھکتوں کو ان کے کولکاتہ کی بریگیڈ ریلی کی کامیابی ثابت کرنے کے لئے فیک فوٹو کا سہار ا کیوں لینا پڑا؟  ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ جب آپ کے مخالفین آپ کے انتخابی نعرے کو آپ سے زیادہ اچھالنے لگیں تو سمجھ لیں کہ آپ کا تیر سیدھے نشانے پر بیٹھا ہے۔ ممتا بنرجی انتخابی ریلیوں میں جتنی بار ’’کھیلا ہوبے‘‘ بول رہی ہیں اس سے زیادہ بارمودی جی کے منہ سے یہ الفاظ سنے جارہے ہیں۔ پچھلے ہفتے پورولیہ کی ایک ریلی میں تو مودی جی نے کھیلا ہوبے کی گردان کرڈالی۔ بی جے پی کے زیادہ تر لیڈران جس طرح ’’کھیلا ہوبے ‘‘کو نشانہ بنارہے ہیں اس سے یہ بات واضح ہے کہ ان بے ضرر سے الفاظ نے دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو بری طرح پریشان کردیا ہے۔ بنگلہ زبان کے ان دو الفاظ کے پیچھے ایک طرح کی وارننگ یا انتباہ پوشیدہ ہے۔ یوں تو ان الفاظ کا سیدھا سادھا مطلب ’’ کھیل ہوگا‘‘ ہے تاہم میرے خیال میں ’’اب آئے گا کھیل کا مزہ‘‘ سے اس کا مفہوم زیادہ بہتر طریقے سے ادا ہوتا ہے۔ بی جے پی اس نعرے سے اس قدر حواس باختہ ہوگئی ہے کہ اس نے الیکشن کمیشن میں اس نعرے کے خلاف شکایت کی ہے۔
  در اصل یہ انتخابی نعرہ نہیں ممتا کا مودی جی کو چیلنج ہے۔ مودی جی ہر ریلی میں بنگال میں’’آشول پوریبورتن‘‘ یعنی حقیقی تبدیلی لانے کے عزم کا اظہار کرکے ممتا بنرجی پر نفسیاتی دباؤ بنانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ممتا پر اس قسم کا حربہ کام نہیں کرسکتا ہے کیونکہ وہ کسی اور ہی مٹی کی بنی ہیں۔ویسے بھی مخالف پارٹی کے پرانے پاپیوں اور غداروں کے ذریعہ مودی جی کس نئی تبدیلی کا خواب بنگالیوں کو دکھا رہے ہیں یہ ناقابل فہم ہے؟ مغربی بنگال کے باشعور، کشادہ ذہن اور انصاف پسند لوگوں نے"No Vote to BJP" نام کی مہم چھیڑ کر بی جے پی کی مشکلات اور بڑھادی ہیں۔یہ لوگ ممتا کے حمایتی نہیں ہیں انہیں بس یہ اندیشہ ہے کہ بی جے پی کا اقتدار میں آنا بنگال اور بنگالیوںکیلئے اچھا نہیں ہے۔ یہ محض بنگال کی تہذیب و ثقافت اور ہندو مسلم بھائی چارے کے تحفظ کیلئے سڑکوں پر نکلے ہیں۔
جہاں تک ممتا کا سوال ہے تو وہ میدان چھوڑ کر بھاگنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ وہ تن تنہا ملک کے وزیر اعظم، وزیر داخلہ، کئی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ، درجنوں اراکین پارلیمنٹ اور دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے دولتمند پارٹی کا مقابلہ کررہی ہیں۔ اپنے اس عزم و استقلال کے مظاہرے کے لئے وہ بار بارمودی جی کو یہ باور کرارہی ہیں کہ’’ اطمینان رکھئے شریمان کھیلا ہوبے۔‘‘اس نعرے کے ذریعہ وہ لاکھوں ترنمول کانگریس ورکرز اور کروڑوں رائے دہندگان کو بھی یہ یقین دہانی کرارہی ہیں کہ وہ مقابلے کے لئے تیار ہیں۔ ممتا کے حوصلے نہیں ٹوٹے ہیں،ان کا صرف پاؤں ٹوٹا ہے۔ ڈاکٹروں کے مشوروں کو ٹھکراکر، پلاسٹر لگے پاؤں کے ساتھ، وہیل چیئر پر بیٹھی ممتا پورے صوبے کا دورہ اسی آن بان سے کررہی ہیں جو ان کی شناخت ہے۔ نہ ان کے پائے استقلال میں ذرا سی لغزش آئی ہے اور نہ ہی ان کی  آواز مدھم ہوئی ہے۔ ان کے زخمی ہونے پر ان کے جو دشمن شادیانے بجارہے ہیں انہیں وہ وارننگ یاد رکھنی چاہئے جو دیدی نے حال میں دی ہے: زخمی شیرنی اور زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK