EPAPER
Updated: October 31, 2020, 6:02 AM IST | Shahid Latif | Mumbai
بہار کی اہم زبانوں میں سے ایک بھوجپوری ہے جس کے کئی گیت بہار الیکشن میں دھوم مچا رہے ہیں ۔ الیکشن ختم ہوگا تو ان گیتوں کی دھوم بھی ختم ہوجائیگی۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ زبان کا درد رکھنے والے اپنا درد بیان کرتے رہ جائینگے۔
بہار میں ان دِنوں دو مختصر سے فقرے بالکل ایسے چل رہے ہیں جیسے بارش سے پہلے تیز ہوائیں چلتی ہیں ۔ ایک ہے ’’کا با‘‘ یعنی کیا بات ہے؟ دوسرا ہے ’’ای با‘‘ (یہ بات ہے)۔ یہ بھوجپوری زبان کے الفاظ ہیں ۔ پہلا فقرہ مشہورو مقبول اداکار منوج تیواری کے ایک ویڈیو سانگ بعنوان ’’بمبئی میں کابا‘‘ میں بھی موجود ہے جس منوج تیواری ایک گیت گارہے ہیں اور پس منظر میں الگ الگ موضوعات سے متعلق مناظر کسی تیز رفتار فلم کی طرح چل رہے ہیں ۔ ساڑھے چھ منٹ کی اس ویڈیو کو اب تک لاکھوں ناظرین دیکھ چکے ہیں ۔ یہ مضمون نگار اس گیت کو جس حد تک سمجھ پایا ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ شاعر ڈاکٹر ساگر نے اُن ہموطنوں کے دُکھ، درد، پریشانی، تذبذب، احساس محرومی، احساس تنہائی، گھر کی یاد اور روزگار کی اذیتوں کو بیان کیا ہے جو بہار سے ممبئی آکر ’’کچھ پانے‘‘ کی تمنا میں اپنا ’’بہت کچھ‘‘ قربان کرتے ہیں ۔ ’’کا با‘‘ ہی کا فقرہ بہار کی ایک نوجوان گلوکارہ نیہا راٹھوڑ نے بھی استعمال کیا اور بھوجپوری ہی میں ایک نیا گیت پیش کرتے ہوئے متعدد سماجی مسائل کی نشاندہی کی جن کا سامنا اہل بہار کو اُن وعدوں کے باوجود ہے جو کبھی پورے نہیں ہوتے مگر انتخابات میں دھڑلے سے کئے جاتے ہیں ۔ نیہا کا گیت بھی یو ٹیوب پر لاکھوں صارفین نے دیکھا اور اس نوجوان گلوکارہ کی جرأت اور بے باکی کی داد دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے نیہا کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی چنانچہ کئی ویڈیو اور ٹی وی چینلوں نے اس کا انٹرویو کرتے ہوئے کسی نہ کسی درجے میں اس کے فن کا اعتراف کیا۔
ابھی یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ ’’کا با‘‘ کا جواب ’’ای با‘‘ سے دیتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ بہار میں کیا کیا ہے۔ سڑکیں ہیں ، بجلی ہے، پانی ہے، انٹرنیٹ کنکشن ہے، روزگار ہے اور اس کے علاوہ بھی کئی قابل ذکر ترقیاتی پیش رفتیں ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں ’’کا با‘‘سے فائدہ اُٹھا رہی ہیں تو ’’ای با‘‘ سے برسراقتدار پارٹی۔ وقت کے ساتھ نغمہ و موسیقی کے اس موسم گل میں کئی دوسرے فنکار بھی شامل ہوئے ہیں جنہیں انٹرنیٹ کے صارفین دھوم سے دیکھ رہے ہیں ، سن رہے ہیں اور متعلقہ گیتوں میں کہی گئی باتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔
صارفین اور ناظرین لاکھوں میں ہیں اور تمام ویڈیوز کو جوڑ کر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ممکن ہے یہ تعداد کروڑوں تک پہنچے۔ موسم کے پھل کی مقبولیت کی طرح ان گیتوں کی مقبولیت ان کے موضوعات سے مستعار ہے مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس میں زبان کی دلکشی اور فنکاروں کے فن کا بڑا دخل ہے۔ ایسے دور میں جبکہ قومی و عالمی سطح پر بہت سی زبانیں اور بولیاں آخری سانسیں لے رہی ہیں ، بھوجپوری کی اپنی شان ہے جس کے بولنے والے ۵؍ کروڑ ہیں ۔ یہ جان کر حیرت ہی ہوتی ہے کہ ملک میں بھوجپوری بولنے والوں کی آبادی بڑھی ہے کیونکہ ۲۰۰۱ء کی مردم شماری کے بعد اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد ۳۳؍ ملین بتائی گئی تھی جو ۲۰۱۱ء میں ۵۰؍ ملین ہوگئی۔ ممکن ہے یہ تعداد زیادہ ہو اور بھوجپوری کے ساتھ بھی وہی ہوتا ہو جو اُردو کےساتھ ہوتا ہے کہ مردم شماری پر مامور کارکنان ہندی لکھ کر زبان کا خانہ اپنے طور پر پُر کرلیتے ہیں ! بہرکیف پانچ کروڑ ہو یا زیادہ، یہ بہت بڑی آبادی ہے۔ دیگر ملکوں کے بھوجپوری بولنے والوں کو شامل کرلیا جائے تو شاید یہ تعدا ددُگنی ہوجائے۔
یہاں تک تو سب ٹھیک ہے مگر اس کے آگے کی داستان میں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ جس دن الیکشن ختم ہوگا، مذکورہ گیتوں اور ان کے پیش کرنے والے فنکاروں کو فراموش کردیا جائیگا اور اہل سیاست تو خیر سے فائدہ اُٹھا کر آگے بڑھ ہی جائینگے، خود ناظرین اور صارفین بھی انہیں یاد نہیں رکھیں گے۔ زبانوں اور فنون لطیفہ کے ساتھ یہی ہوتا آیا ہے۔ بہار میں میتھلی، مگہی، انگیکا، ہندوی اور ایسی ہی کئی دوسری زبانیں اور بولیاں بھی مروج ہیں اور کم یا زیادہ سب کے ساتھ اہل سیاست و حکومت کا ایک جیسا طرز عمل ہے جو ظاہر ہے کہ ہمدردانہ یا ذمہ دارانہ نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا فرض زبانوں سے فائدہ اُٹھانا ہے زبانوں کو فائدہ پہنچانا نہیں ۔ بہار میں بولی جانے والی زبانوں میں ہندی تو خیر سے مستحکم ہے مگر اُردو کیلئے بڑی جدوجہد کی گئی جو اَب بھی جاری ہے، اس کے علاوہ جو زبانیں اور بولیاں ہیں وہ اگر زندہ ہیں تو اپنے بولنے والوں کی وجہ سے، سرکار کو ان کی پروا نہیں ہے۔ اہل بھوجپوری اپنی زبان کو آٹھویں شیڈول میں شامل کرانے کیلئے عرصۂ دراز سے جدوجہد کررہے ہیں اور ان کی اب تک شنوائی نہیں ہوئی ہے۔ سرکاریں آتی ہیں ، چلی جاتی ہیں ، پھر آجاتی ہیں اور پھر چلی جاتی ہیں ۔ زبانیں اس ’’آمدورفت‘‘ کو حسرت آمیز نگاہوں سے دیکھتی ہیں اور صرف زبانیں نہیں اُن سے وابستہ فنون، فنکار اور وہ کلچر بھی کف افسوس ملتا ہے جو ان زبانوں کے دم خم سے اپنی موجودگی کا ثبوت دیتا ہے۔
ایسا نہیں کہ زبان اور فنون لطیفہ صرف الیکشن میں معاون ثابت ہوتے ہیں ۔ ان سے آتی جاتی سرکاروں کو معاشی فائدہ بھی ملتا ہے۔ بھوجپوری بھی معاشی فائدہ پہنچاتی ہے۔ اس کی فلم انڈسٹری ۲؍ ہزار کروڑ روپے کی انڈسٹری ہے جسے بالی ووڈ کی طرز پر بھوجی ووڈکہا جاتا ہے۔ (براہ کرم اسے بھو َجی بمعنی بھابھی نہ پڑھ لیا جائے)۔ اس انڈسٹری کی فلموں کے معیارو مذاق سے بحث کی جاسکتی ہے مگر اس کے معاشی فائدے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تہذیب و ثقافت کے پس منظر میں نہیں تو اقتصادیات ہی کے حوالے سے اہل سیاست کا لسانی تغافل قابل معافی نہیں ہے۔ زبانو ں کو اُن کا حق ملنا چاہئے، سرکاری سرپرستی حاصل ہونی چاہئے اور ان کے ساتھ کھلواڑ کو بند ہونا چاہئے۔
بہار الیکشن کے حوالے سے بھوجپوری زبان کا یہ مقدمہ اس لئے بھی لکھا جارہا ہے کہ وطن عزیز میں زبانوں کو بچانے کی پُرزور مہم ازحد ضروری ہے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ ہماری ۱۹۷؍ زبانوں پر خطرہ منڈلا رہا ہے یا ان کی حالت نازک ہے۔ بعض دیگر ماہرین اس سے بھی زیادہ زبانوں کے آئی سی یو میں ہونے کی اطلاع دیتے ہیں ۔ ۳؍ مارچ ۲۰۲۰ء کے انڈین ایکسپریس میں پیوپلس لنگوسٹک سروے آف انڈیا ۲۰۱۰ء سے وابستہ ماہر لسانیات گنیش نارائن دیوی کا وہ بیان نقل کیا گیا ہے جس میں انہوں نے گزشتہ ۶۰؍ سال میں ۲۵۰؍ زبانوں اور بولیوں کے معدوم ہوجانے کی اطلاع دیتے ہوئے کہا تھا کہ مزید ۶۰۰؍ زبانیں اور بولیاں نزع کے عالم میں ہیں ۔
خدا کا شکر ہے کہ اس میں اُردو شامل نہیں ہے مگر ہمیں اپنی زبان کے تعلق سے بہت زیادہ مطمئن بھی نہیں رہنا چاہئے۔