Inquilab Logo Happiest Places to Work

بجٹ سے بڑی توقعات وابستہ تھیں

Updated: February 02, 2022, 9:07 AM IST | Mumbai

ماہرین کو حق ہے کہ بجٹ کا اپنے اپنے نقطۂ نظر سے تجزیہ کریں۔ جو ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے ذریعہ حکومت روزگار پیدا کرنے اور وکاس کے اپنے وعدے کو پورا کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔

budget 2022
بجٹ ۲0۲۲

ماہرین کو حق ہے کہ بجٹ کا اپنے اپنے نقطۂ نظر سے تجزیہ کریں۔ جو ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے ذریعہ حکومت روزگار پیدا کرنے اور وکاس کے اپنے وعدے کو پورا کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ اگر ماہرین کا دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ ورچوئل کرنسی سے ہونے والی آمدنی پر ۳۰؍ فیصد ٹیکس ضرور لگایا گیا ہے مگر یہ ورچوئل کرنسی کو رائج کرنے کی جانب اہم قدم ہے تو اس سے بھی انکار ممکن نہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ بجٹ کے ذریعہ سرکاری ملازمین کو بڑی راحت دی گئی ہے جبکہ تنخواہ داروں سے وصول کئے جانے والے ٹیکس کے ڈھانچہ کو جوں کا توں رکھ کر اس طبقے کی آمدنی کو غیر متاثر رکھا گیا ہے تو یہ بھی سوچنے کا ایک زاویہ ہے۔ غرض بجٹ کے الگ الگ پہلوؤں پر الگ الگ زاویوں سے روشنی ڈالی جاسکتی ہے اور بجٹ کو بہتر قرار دیا جاسکتا ہے مگر بحیثیت مجموعی بجٹ کیسا ہے؟ اس سوال پر دوٹوک غیر جانبدارانہ رائے شاید مشکل ہی سے سامنے آئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بجٹ اگر معمولی نہیں تو غیر معمولی بھی نہیں ہے جبکہ موجودہ حالات میں جب معیشت کراہ رہی ہو، حکومت کو ایسا انقلابی بجٹ پیش کرنا چاہئے تھا جس سے حکومت کی معاشی بصیرت اور دوربینی و دور اندیشی کا اندازہ ہوتا۔ ظاہر ہے کہ یہ مشکل کام ہے۔ عوام کو راحت اور سہولت دینا اور اپنا خرچ قابو میں رکھنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ محسوس کرتا ہو کہ اس کی آمدنی میں اضافہ نہیں ہورہا ہے اس کے باوجود اُسے اپنا خرچ روکنا نہیں ہے۔ ایسی صورت میں اُسے کسی حکمت عملی پر غور کرنا ہوگا اور کوئی نئی تدبیر بروئے کار لانی ہوگی۔ ممکن ہے وہ غیر روایتی آمدنی پر غور کرے اور چند گھنٹے مزید محنت کرکے اُس اضافی آمدنی سے اپنا خرچ اور آمدنی کا گوشوارہ درست کرے۔ بجٹ پر غور کیجئے تو محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کا مالی خسارہ بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں خرچ کی تحدید ضروری تھی۔ حکومت کا خرچ ۴ء۶؍ فیصد بڑھے گا۔ قرض بھی کم ہونا چاہئے تھا مگر قرض بھی کم نہیں ہورہا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ حکومت کی آمدنی کے ہر ایک روپے میں ۳۵؍ پیسے قرض سے حاصل ہورہےہیں۔ اس کی وجہ سے مالیاتی خسارہ میں اضافہ ہوگا اور حکومت اس خسارہ کو پورا کرنے کیلئے شہریوں پر نت نئے ٹیکس عائد کرے گی۔ آپ جانتے ہیں  پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں حکومت کے ٹیکسیزشامل ہیں۔ گزشتہ کئی مہینوں سے پیٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ، جو فی الحال شاید انتخابات کی وجہ سے رُکا ہوا ہے، معاشی حالات کی خستگی کے باوجود جاری رہا۔ دسمبر ۲۱ء میں وزیر مالیات نرملا سیتا رمن نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ حکومت نے گزشتہ تین مالی سال کے دوران ایندھن پر عائد ٹیکسوں سے ۸؍ لاکھ کروڑ روپے کمائے ہیں۔ یہ،  ٹیکس وصولی کا محض ایک ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ درجنوں دیگر ذرائع ہیں۔ ان کے بدلے اگر عوام کی راحت رسانی کیلئے کچھ کیا جاتا ہے، مثال کے طور پر آواس یوجنا پر کیا جانے والا خرچ، تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے حکومت عام آدمی کی ایک جیب سے دس روپے نکالے اور دوسری جیب میں دو روپے ڈالے۔ نقصان تو ۸؍ روپے کا یقیناً ہوگا جو ہورہا ہے۔ بجٹ میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کیلئے اختیار کی جانے والی تدابیر کی تفصیل بہت کم ملتی ہے جبکہ ہم بے روزگاری کے ناقابل بیان دور سے گزر رہے ہیں۔ اس طرح، بجٹ کا مجموعی تاثر کسی غیر معمولی بجٹ کا نہیں ہے جبکہ موجودہ حالات میں، جو نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور پھر کورونا کے بعد کے حالات ہیں، کچھ الگ اور انقلابی اقدامات ضروری تھے ۔   n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK