EPAPER
Updated: December 12, 2019, 2:12 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai
اللہ تبارک و تعالیٰ نےقرآن مجید میں ایک جگہ اُمت کی ایک صفت ’’وسط‘‘ کا ذکر فرمایا ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت ۱۴۳؍ میں ارشاد ہے: ’’اسی طرح ہم نے تم کو `اُمت ِ وسط بنایا؛ تاکہ تم لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ ہوں۔‘‘ آیت ِمبارکہ میں ’’وسط‘‘ کے معنیٰ ’’درمیانہ‘‘ کے ہیں اور بعض علما ء نے اس کا ترجمہ ’’معتدل‘‘ کیا ہے
مذہب ِ اسلام میں لفظِ امت بہت وسیع معنیٰ میں استعمال ہوا ہے؛ اس کامطلب صرف ایمان لانا نہیں ہے بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس اُمت کی بہت ساری خصوصیات اور صفات ذکر کی ہیں، اگر وہ صفات و خصوصیات ہمارے اندرنہیں ہیں تو ہم حقیقتاً اِ س ملت کے فرد کہلانے کے حقدار نہیں ہیں۔ اِس کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر آپ نے دنیا کی کوئی تنظیم جوائن کر لی اور اس کی حقیقی روح کے آپ محافظ اور مبلغ بن گئے تو آپ صحیح معنوں میں اُس تنظیم کے فرد کہلائیں گےبصورتِ دیگر نہ توہی اُس تنظیم کا آپ سے کچھ بھلا ہوگا اور نہ ہی آپ دنیا کی نگاہ میں اس تنظیم سے منسوب ہونے کے حقدار ہوںگے۔ با لکل اسی طرح ہم میں سے بہت سارے لوگ ایمان والے اور مومن ہیں لیکن امت کی جو حقیقی روح ہے اس سے عاری ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نےقرآن مجید میں ایک جگہ اُمت کی ایک صفت ’’وسط‘‘ کا ذکر فرمایا ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت ۱۴۳؍ میں ارشاد ہے: ’’اسی طرح ہم نے تم کو `اُمت ِ وسط بنایا؛ تاکہ تم لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ ہوں۔‘‘ آیت ِمبارکہ میں ’’وسط‘‘ کے معنیٰ ’’درمیانہ‘‘ کے ہیں اور بعض علما ء نے اس کا ترجمہ ’’معتدل‘‘ کیا ہے ۔ بہر حال یہاں یہ سمجھنا ہے کہ درمیانہ اور معتدل کا حقیقی مفہوم کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امت ِ محمدیہ جادۂ اعتدال پر قائم ہے ، اسی وجہ سے ہر معاملے میں اُن کا طرزِ عمل معتدل ہونا چاہئے۔ایک حدیثِ پاک میں اعتدال کا یہ معنیٰ بالکل واضح طور پرمذکور ہے: عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا : ’’کیا مجھے یہ نہیں بتایا گيا کہ تم دن کوروزہ رکھتے ہو اوررات کوقیام کرتے ہو؟ میں نے جواب دیا جی، نبی ﷺ فرمانے لگے یہ نہ کیا کرو بلکہ روزہ بھی رکھو اورترک بھی کرو ، قیام بھی کیا کرو اورسویابھی کرو۔اس لئے کہ تمہارے جسم کا بھی تم پرحق ہے اورتمہاری آنکھوں کا بھی تم پرحق ہے اورتمہاری بیوی کا بھی تم پرحق ہے ، اور تمہارے مہمان کا بھی تم پرحق ہے۔‘‘ (بخاری)
اعتدال کے لفظ سے کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ یہ دو انتہا والے عمل کے درمیان کا راستہ ہے ، مثال کے طور پر ایسےلوگوں کی نظر میں `سچ، ایک انتہا ہے اور `جھوٹ ` ایک انتہا ہے اور دونوں کے درمیان یعنی کبھی سچ اور کبھی جھوٹ کی آمیزش راہِ اعتدال ہے۔ یہ خود ساختہ نظریہ سراسر با طل ہے کیونکہ سچائی میں جھوٹ کی آمیزش سے سچائی صحیح معنوں میں سچائی نہیں رہتی اوراسی طرح جھوٹ میں سچائی کی آمیزش سے جھوٹ کی قباحت کم نہیں ہوتی۔ لہٰذا سچائی کے باب کا اعتدال یہی ہوگا کہ انسان سو فیصد سچ بولے اور جھوٹ کے تعلق سے اعتدال یہ ہوگا کہ انسان جھوٹ سے مکمل طور پر بچے۔
قرآن مجید میں ایک اور جگہ اُمت ِ محمدیہ کی خصوصیت بیان کرتے ہوئےاللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ’’ تم وہ بہترین اُمت ہو، جو پوری انسانیت کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ بھلائی کا حکم دو اور بُرائی سے روکو، اور اللہ پر ایمان رکھو۔‘‘ (سورہ آلِ عمران:۱۱۰) اِ س آیتِ کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اُمتِ محمدیہ کو داعی و مصلح ہونے کا تمغہ دیا ہے۔ زیرِ نظر مضمون کے اعتبار سے اُمتِ محمدیہ کا حقیقی فرد بننے کے مقصد سے ہر مسلمان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی طاقت اور صلاحیت کے حساب سے دعوت و اصلاح کا کام کرے، بصورتِ دیگر ملت کے فرد ہونے کا اُس کا دعویٰ کھوکھلا ہوگا۔ یہاں ایک فقہی بحث یہ ہے کہ بعض علماء نے دعوت و تبلیغ کے کام کو فرضِ عین لکھا ہے ، اس اعتبار سے ہر مسلمان کے لئے اپنی صلاحیت کے حساب سے یہ کام ضروری ہے ۔ البتہ بعض علماء نے دعوت و تبلیغ کے کام کو فرضِ کفایہ لکھا ہے، اِس اعتبار سے اُمت محمدیہ کی ایک جماعت کے لئے یہ کام ضروری ہے یعنی کچھ افراد اگر اس فریضہ کو انجام دیتے رہیں تو پوری امت گناہ سے بچ جائے گی اور اگر کوئی نہ کرے تو پوری اُمت گنہگار ہوگی۔
قرآن مجید میں ایک اور مقام پر اُمتِ محمدیہ کی خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ’’یہ وہ لوگ ہیں کہ جب اُن سے لوگوں نے کہا کہ کفار تمہارے مقابلہ میں اکٹھے ہورہے ہیں؛ اِس لئے تم اُن سے ڈر کر رہو، تو اس بات نے اُن کے ایمان میں اضافہ کر دیا اور اُن لوگوں نے کہا: ہمارے لئے اللہ ہی کافی ہیں اور وہی بہترین کار ساز ہیں۔‘‘(سور ہ آل عمران: ۱۷۳) اِس آیت میں دراصل غزوہ ٔاحد کے بعد کا تذکرہ ہے کہ جب اہلِ مکہ نے یہ دیکھا کہ بظاہر فتحیاب ہونے کے با وجود وہ یوں ہی لوٹ گئے تو دوبارہ حملہ کر نے کی ہمت تو نہیں کر پائے لیکن یہ سازش رچی کہ مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کے لئے یہ خبر دیں کہ اہلِ مکہ بڑے پیمانے پر حملہ کرنے کے لئے اکٹھا ہو رہے ہیں۔ اُن کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان ڈر جائیں لیکن وہ اِس سازش میں کامیاب نہیں ہوئے اور مسلمانوں نے جرأت کے ساتھ جواب دیا کہ ہمارے لئے اللہ ہی کافی ہے۔
یہی وہ نکتہ ہے جو موجودہ زمانے میں ہمارے لئے بے انتہا کار گر ہے۔ آج جب ہم مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک نظر دوڑاتے ہیں تو یہی پاتے ہیں کہ مسلمانوں کو ہر جگہ ڈرانے اور دھمکانے کی سازش رچی جارہی ہےاور مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ وہ سازش کا شکار ہو کر ہر جگہ لرزہ بر اندام ہیں اور نتیجتاً پِٹتے جارہے ہیں۔ اگر مسلمان صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی طرح خوف کی کیفیت سے باہر آکرایمانی جرأت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے یہ اعلان کر دیں کہ ہمارے لئے ہمارا للہ ہی کافی ہے تو دشمنوں کے غبارے کی ہوا از خود نکل جائے گی اور مسلمان رسوا ہونے سے بچ جائیں گے۔ یاد رکھئے! جب تک ہم اِس جرأت کا مظاہرہ نہیں کریں گے، تب تک ہم اُمت ِ محمدیؐ کے حقیقی سپاہی کی فہرست میں شامل نہیں ہو سکیں گے۔
یہ سچ ہے کہ جب تک مسلمان اپنے اندر اللہ تبارک و تعالیٰ کا خوف پیدا نہیں کریں گے تب تک وہ غیروں سے ڈرتے رہیں گے اور اُمت محمدیہ کے حقیقی فرد ہونے کا تمغہ اُن کے سر پر نہیں سج پائے گا کیونکہ اللہ تبارک تعالیٰ نے بطورِ اُمت مسلمانوں کو اِس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ صرف اللہ سے ہی ڈریں اور غیروں کے خوف کو اپنے دل میں جگہ نہ دیں۔ سورہ بقرہ کی آیت ۱۵۰؍ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’…تو اُن سے نہ ڈرو اور مجھ سے ہی ڈرتے رہو، (یہ حکم اس لئے ہے کہ) میں تم پر اپنی نعمت پوری کردوں۔‘‘
بے شمار احادیث میں سچے پکے مسلمان کی علامتیں ذکر کی گئی ہیں، ظاہر ہے جو سچا پکا مسلمان ہوگا وہی امت ِ محمدیہ کا حقیقی فرد اور سپاہی ہوگا۔ ایک حدیثِ مبارک میں حضرت ابو ہریرہ ؓ نبیؐ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ سلامت رہیں اور مومن وہ ہے جس سے دوسرے لوگ اپنی جان ومال کے معاملے میں مامون ہوں۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ)
خلاصہ یہ ہے کہ جب ہر مسلمان اُمت ِ محمدیہ کا ایک فرد ہونے کو اپنے لئے باعث ِ افتخار سمجھتا ہے تو ضروری یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اُن صفات سے متصف بھی کرے جو امتِ محمدیہ کی پہچان ہیں اور اِس کی شروعات اپنے قریب اورگھر کے لوگوں سے کرے کیونکہ بیوی بچے؛ ماں باپ؛ بھائی بہن ؛ دوست اور پڑوسی سب کے سب اسلام کی نظر میں آپ پر حق رکھتے ہیں ،اگر آپ قریبی لوگوں کا حق ادا نہیں کر پائیں گے تو بڑے پیمانے پر اور عالمی سطح پر آپ کا کردار بطور اُمت یقیناً کمزور پڑجائے گا۔