Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسلام کو پوری زندگی کی ہمہ جہتی تکمیل مطلوب ہے

Updated: December 13, 2019, 3:15 PM IST | Dr. Muhammad Abdul Haq Ansari | Mumbai

معروف عبادات میں سے نماز، تلاوت ِ قرآن اور ذکر روزے کے اوّل اجزاء ہیں۔ روزے میں انہی کی کثرت ہوتی ہے اور انہی پر بیشتر قوت صرف ہوتی ہے۔ زندگی کے دوسرے شعبوں میں اللہ کی نافرمانی سے بچنا اور اس کے احکامات بجالانا، خلق خدا کے ساتھ حسن سلوک، ہمدردی اور مواسات، ان ساری چیزوں کا نمبر بعد میں آتا ہے، اگرچہ کہ یہ دونوں اجزاء، ربانی اور انسانی روزے کی حقیقت میں شامل ہیں اور بذاتہ مطلوب ہیں۔

روزہ اسلام کے ۵؍ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے۔ جاگرن
روزہ اسلام کے ۵؍ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے۔ جاگرن

انسانی زندگی ایک کل ہے جس کے مختلف اجزاء ہیں، ایک وحدت ہے جس کے مختلف پہلو ہیں: مادی اور روحانی، انفرادی اور اجتماعی، اخلاقی اور معاشرتی، معاشی اور سیاسی۔ اسلام کی نظر میں زندگی کے یہ سارے پہلو توجہ کے طالب اور عنایت کے مستحق ہیں۔ اپنی اپنی جگہ پر ہر خیر کی ترقی بذاتہ مقصود ہے، اور پوری زندگی کی تکمیل بحیثیت کُل مطلوب ہے۔ اسلام نہ تنہا مادی ترقی چاہتا ہے نہ تنہا روحانی طاقت، نہ صرف نفس کا تزکیہ اسے مطلوب ہے اور نہ صرف معاشرے کی تعمیر، نہ محض عبادات میں انہماک اس کے پیش نظر ہے نہ محض اخلاق کی تحسین، نہ تنہا معاشی فلاح و بہبود عزیز ہے اور نہ صرف سیاسی عدل و انصاف۔ اسلام تمام شعبہ ہائے زندگی کی تکمیل اور یوں زندگی کی بحیثیت کُل ترقی چاہتا ہے۔
 اسلام کو پوری زندگی کی ہمہ جہتی تکمیل مطلوب ہے۔ اس حقیقت کا اظہار شریعت ِ اسلامی کے تمام ممتاز شارحین اور حکماء نے کیا ہے ۔ علامہ شاطبیؒ کا قول ہے ’’شریعت کے احکام مصالح کے حصول اور مفاسد کے ازالے کے لئے وضع کئے گئے ہیں۔ یقیناً یہی چیزیں ان کی تشریع کا سبب ہیں۔‘‘ (الموافقات فی اصول الشریعہ، ابواسحاق الشاطبی)
  زندگی کی ہمہ جہت تکمیل کے مقصد کے پیش نظر شریعت نے زندگی کے تمام شعبوں میں ہمارے لئے اہداف مقرر کئے ہیں۔ ان میں سے بعض اہداف کی تحصیل لازمی اور ضروری قرار دی ہے، یہ فرض و واجب ہیں ، اور بعض کو پسندیدہ کہا ہے اور ان کے حصول کی ترغیب دی ہے ، یہ مستحب اور مندوب ہیں۔ پھر ان میں کون زیادہ اہم ہے، کون کم اہم اور کس کو کس پر ترجیح حاصل ہے، اس کی مختلف انداز سے وضاحت بھی شریعت نے کر دی ہے۔ اس کام کو نہ ہماری عقل پر چھوڑا ہے نہ ہماری پسند اور میلانِ طبع پر، اور نہ کسی کے کشف و الہام پر۔ شریعت کے مقررکردہ لازمی اہداف کی تکمیل اور پسندیدہ و مستحب اہداف کی بیش از بیش تحصیل اور اس کاوش میں ان ترجیحات کا لحاظ جن کی نشاندہی شریعت نے کردی ہے، وہ عبادت جامعہ ہے جسے خالق نے ہماری تخلیق کی غایت قرار دیا ہے، فرمایا:
 ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘ (الذاریات: ۵۱)
 اس عبادت جامعہ کا ایک اہم جز معروف عبادات ہیں۔ دوسرے تمام اجزاء کی طرح عبادات بھی بذات خود مقصود ہیں۔ نماز ہو یا روزہ، ذکر ہو یا تلاوت، حج ہو یا قربانی، یہ ساری عبادتیں فی نفسہٖ مطلوب ہیں۔ یہی ان کی اصل حقیقت ہے۔ دوسرے مقاصد کے حصول میں ان کی افادیت ان کی اصل حقیقت نہیں ہے۔
 قرآن و حدیث کی تصریحات کی روشنی میں نماز ایک طرف اللہ رب العزت کی حمد وثنا، تسبیح و تقدیس اور تکبیر و تعظیم ہے، دوسری طرف انسان کی اپنی بندگی کا اثبات، عجز و نیازمندی کا اظہار، رکوع و سجود ہے اور تیسری طرف رب کے کلام کی تلاوت، اس کے احکامات کا استحضار، اس کی اطاعت کا محور، اس سے رہنمائی اور مدد کی درخواست اور اپنی کوتاہیوں پر مغفرت کی دُعا ہے۔
 یہی نماز کی اصل حقیقت ہے۔ جہاں تک معاملہ ہے فحش و منکر سے روکنا، اخلاق حسنہ سے آراستہ کرنا، اطاعت کا خوگر بنانا، اجتماعیت کا احساس بیدار کرنا وغیرہ، یہ نماز کے فوائد ہیں۔ ان سب کی حیثیت ثانوی ہے۔ کسی چیز کی اصل حقیقت اور غایت اور اس کے ذیلی فوائد میں جو فرق ہوتا ہے وہی فرق یہاں بھی کرنا چاہئے۔ قرآن مجید نے اس فرق کی نشاندہی اس طرح فرمائی ہے : 
 ’’بیشک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے، اور واقعی اﷲ کا ذکر سب سے بڑا ہے۔‘‘ (سورہ العنکبوت:۴۵)
 روزے کا مقصد قرآن مجید میں تقویٰ بتایا گیا ہے۔ فرمایا گیا:
 ’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔‘‘ (سورہ البقرہ:۱۸۳)
 تقویٰ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور ناراضگی سے بچنے اور اس کے احکامات بجالانے کا نام ہے۔ روزہ انسان کے لئے ضبط ِ نفس کی غیرمعمولی تربیت ہے ۔ مگر یہ مشق اور یہ تربیت بذاتِ خود مقصود نہیں، مقصود تو تقویٰ ہے۔ تقویٰ کی تفصیل قرآن مجید میں مختلف مقامات پر آئی ہے ، جیسے سورہ البقرہ میں آیت نمبر ایک تا۴؍ اور ۱۷۷، آل عمران میں ۱۳۳؍ تا ۱۳۵، اللیل میں ۱۷؍ تا ۲۱؍ وغیرہ۔ ان آیات کی روشنی میں تقویٰ اس عبادت جامعہ کی انجام دہی کا ایک اسٹیج ہے جس کا ذکر شروع میں کیا گیا ہے۔
 معروف عبادات میں سے نماز، تلاوت ِ قرآن اور ذکر روزے کے اوّل اجزاء ہیں۔ روزے میں انہی کی کثرت ہوتی ہے اور انہی پر بیشتر قوت صرف ہوتی ہے۔ زندگی کے دوسرے شعبوں میں اللہ کی نافرمانی سے بچنا اور اس کے احکامات بجالانا، خلق خدا کے ساتھ حسن سلوک، ہمدردی اور مواسات، ان ساری چیزوں کا نمبر بعد میں آتا ہے، اگرچہ کہ یہ دونوں اجزاء، ربانی اور انسانی روزے کی حقیقت میں شامل ہیں اور بذاتہ مطلوب ہیں۔
 خدا کا ذکر نماز اور روزے میں محصور نہیں ہے۔ قرآن نے کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ذکر کی تلقین کی ہے اور دو بار ذکر کثیر کی ترغیب دی ہے (الاحزاب:۳۵؍ اور ۴۱)۔ 
 اللہ کے رسولؐ نے بتایا ہے کہ صبح و شام، سوتے جاگتے، کھاتے پیتے، گھر سےنکلتے اور داخل ہوتے، مسجد میں قدم رکھتے اور باہر جاتے، لباس زیب تن کرتے وغیرہ وغیرہ مختلف اوقات اور مواقع پر اللہ تعالیٰ کو کیسے یاد کیا جائے، اور یہ بھی بتایا ہے کہ ا س کی وحدانیت کا اثبات کیسے کیا جائے، اس کی تسبیح و تقدیس کس طرح کی جائے، تکبیر و تعظیم کے لئے کیا الفاظ ادا کئے جائیں، اس کی نعمتوں پر شکر، آزمائشوں پر صبر ، اس کے عذاب سے پناہ، اس کی مدد کی طلب اور اس سے معافی کی درخواست کس ڈھنگ سے کی جائے، ان ہی ساری چیزوں کا اہتمام وہ ’’ذکر کثیر‘‘ ہے جس کا حکم قرآن مجید میں دیا گیا ہے۔
عبادت اور تعمیر سیرت: 
 عبادات بذاتِ خود مقصود اور مطلوب ہیں، اب تک کی گفتگو اس موضوع پر تھی، اب عبادات کے دوسرے پہلو یعنی دین کے دوسرے مقاصد کے حصول میں ان سے کیا مدد ملتی ہے، اس پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔
  نماز اور خاص طور پر تہجد کی نماز اللہ تعالیٰ سے تعلق کو مضبوط بنانے میں بے حد موثر ہے۔ خدا کے ساتھ اخلاص، محبت، اعتماد اور بھروسے کی کیفیت پروان چڑھانے، نتائج اور انجام کو اللہ کے حوالے کرکے دین کی اشاعت اور اس کی اقامت میں ہمہ تن لگ جانے کے لئے انسان کو تیار کرنے میں تہجد کی نماز کا کردار غیرمعمولی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو کارِ رسالت کی گرانقدر ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لئے تیاری کا جو پروگرام تجویز کیا اس میں قیام لیل سرفہرست تھا۔ فرمایا:
 ’’درحقیقت رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے کے لئے بہت کارگر اور قرآن ٹھیک پڑھنے کے لئےزیادہ موزوں ہے ، بے شک آپ کے لئے دن میں بہت سی مصروفیات ہوتی ہیں، اور آپ اپنے رب کے نام کا ذِکر کرتے رہیں اور (اپنے قلب و باطن میں) ہر ایک سے ٹوٹ کر اُسی کے ہو رہیں، وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے، اُس کے سوا کوئی معبود نہیں، سو اُسی کو (اپنا) کارساز بنا لیں۔‘‘ (سورہ المزمل:۶؍تا۹)
 عبادات کا اسلامی زندگی میں کیا مقام ہونا چاہئے، اس کا صحیح جواب نبی کریمؐ اور آپؐ کے اصحابؓ کی سیرت ہی میں ملتا ہے۔ آپؐ پنجگانہ نمازوں کی پابندی کے علاوہ تہجد کا پابندی سے اہتمام فرماتے۔ آپؐ کا رات کا بیشتر حصہ قیام میں گزرتا حتیٰ کے پاؤں مبارک سوج جاتے۔ اس کے علاوہ آپؐ صبح و شام مختلف حالات اور مختلف مواقع کے ذکر کا اہتمام فرماتے۔ خود کرتے اور دوسروں کو ترغیب دیتے۔ زندگی کا ہر لمحہ خدا کی اطاعت اور اس کے کلمے کےاعلاء میں صرف ہوتا، اس کے باوجود اطاعت ِ ربانی کے مزید اہتمام کا احساس غالب رہتا ۔ آپؐ آخری دنوں میں تو سجدہ کی حالت میں بھی تسبیحات کے ساتھ بار بار معافی مانگتے۔ (کتاب التفسیر، حدیث ۴۹۶۸)نبی کریم ﷺ جب قرآن کی وہ آیات پڑھتے یا سنتے جن میں رسالت کی ذمہ داریوں کے بارے میں سوال کا ذکر ہے تو آنکھیں اشکبار ہوجاتیں۔ (الطبقات الکبریٰ، ابن سعد) راہِ خدا کی تکلیفیں جب حد سے بڑھ جاتیں تو نماز کا سہارا لیتے اور فرماتے: ’’نماز میں میرے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک رکھی گئی ہے۔

islam Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK