Inquilab Logo Happiest Places to Work

چشم پوشی ملک کے معاشی مسائل کا حل نہیں

Updated: June 27, 2021, 9:42 AM IST | Mumbai

من کی بات‘‘ ہر مہینے ہوتی ہے مگر وزیر اعظم مودی معاشی مسائل پر من کی بات نہیں کہتے۔ کیا خاموشی اختیار کرلینے سے معیشت کو اس بحران سے نکالا جاسکتا ہے جو دن بہ دن زیادہ شدید ہورہا ہے

The country`s economy is on the brink of collapse.Picture:Midday
ملک معیشت تباہی کے دہانے تصویر مڈڈے

چار سال پہلے تک مرکزی حکومت قومی معیشت کیلئے ’’تیز ترین‘‘ جیسے الفاظ کا استعمال کرتی تھی۔ وزیراعظم ان الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ ہماری معیشت ’’عالمی معیشت کا روشن نقطہ‘‘ (برائٹ اسپاٹ) ہے۔ ان الفاظ کا استعمال انہوں نے آخری مرتبہ ۸؍ نومبر ۲۰۱۶ء کو نوٹ بندی کی تقریر کے دوران کیا تھا۔ اس کے بعد سے ہم نے تیز رفتار روشن نقطے کے بارے میں کچھ نہیں سنا۔
 گزشتہ چار سال سے یہی کیفیت ہے۔ چونکہ معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اس لئے اب اظہار خیال کیلئے اس موضوع کا انتخاب نہیں کیا جاتا۔ اگر حکومت کسی موضوع یا مسئلہ پر خاموشی اختیار کرلے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسئلہ ہے ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ ہے اور دن بہ دن زیادہ تشویشناک ہوتا جارہا ہے لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام یہ جانیں کہ معیشت کو کیا ہوگیا ہے۔
 سرکاری اعدادوشمار اور ڈیٹا کے مطابق ملک کی معاشی نموجنوری ۲۰۱۸ء کے پہلے تیزی سے متاثر ہونی شروع ہوئی۔ یہاں سے چند وجوہات کی بناء پر، جس کے بارے میں آج ہم کوئی قیاس آرائی نہیں کررہے ہیں، معیشت رو بہ زوال ہوئی جس پر قابو نہیں پایا گیا۔ ۲۰۱۸ء کی چار سہ ماہیوں، اس کے بعد ۲۰۱۹ءکی چار سہ ماہیوں اور ۲۰۲۰ء کی پہلی سہ ماہی میں یہ خستگی کافی بڑھی۔ یہ کووڈ کی وباء پھیلنے سے پہلے کی روداد ہے۔ اس کے بعد جب ملک میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ ہوا تب معاشی نمو بالکل ہی ختم ہوچکی تھی۔ 
 حکومت نے اس پورے دورانیہ میں ہمیں نہیں بتایا کہ جو ہوا وہ کیوں ہوا۔ اس کے بجائے انہوں نے اس موضوع پر مکمل خاموشی اختیار کرلی۔ ۱۴؍ اکتوبر ۲۰۱۹ء کو ’’دی ہندو‘‘ نے پراکلا پربھاکر کا ایک مضمون شائع کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’معیشت کی سست رفتاری کے خلاف پورے ملک میں بے چینی پائی جارہی ہے۔ حکومت اب بھی انکار کررہی ہے مگر عوامی حلقوں تک جو ڈیٹا پہنچ رہا ہے اس سے ظاہر ہورہا ہے کہ ایک کے بعد دوسرا زمرہ (سیکٹر) معاشی چیلنج میں اضافہ کا سبب بن رہا ہے۔ عوامی صر َف  (عوام کے ذریعہ ہونے والی خریداری۔ کنزمپشن) کا دائرہ سکڑ گیا ہے اور ۱۸؍ سہ ماہیوں کی کمترین سطح (۳ء۱؍ فیصد) پر آگیا ہے جبکہ دیہی صَرف تیزی سے نیچے آیا جو شہری صرف کا دوگنا ہے۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتی اکائیوں کی جانب سے بینکوں سے قرض لینے کا عمل جمود کا شکار ہے، برآمدات میں کوئی خاص کارکردگی دکھائی نہیں دیتی، اس زمرہ میں بھی اضافہ نہیں ہوا ہے،جی ڈی پی کا اضافہ چھ سال کی کمترین سطح پر ہے، سابقہ اضافہ مالی سال ۲۰۲۰ء میں درج کیا گیا تھا جو صرف ۵؍ فیصد تھا۔ اس کی وجہ سے بے روزگاری بڑھ کر ۴۵؍ سال کی سب سے اونچی سطح پر پہنچی۔ حکومت نے اب تک یہ بھی نہیں بتایا کہ وہ معیشت کو لاحق ہونے والے مسائل کی شناخت کرچکی ہے۔ ایسا کوئی اشارہ بھی نہیں ملتا جس سے علم ہو کہ حکومت کے پیش نظر حالات سے نمٹنے کاکوئی منصوبہ ہے۔‘‘ جیسا کہ بتایا گیا کہ ’’دی ہندو‘‘ میں شائع ہونے والا یہ مضمون پراکلا پربھاکر کا تحریر کردہ ہے جو وزیر مالیات نرملا سیتا رمن کے شوہر ہیں۔ 
 اس مضمون کی اشاعت کو ۲۰؍ ماہ ہوچکے ہیں او راس میں بیان کردہ صورتحال وباء پھیلنے سے، ۲۰۲۰ء کی سست روی سے اور کووڈ کی دوسری لہر سے قبل کی ہے۔ مجھے ایک بزنس ڈیلی کی جانب سے ایک نیوز لیٹر موصول ہوا ہے جس میں چند ہفتوں قبل ختم ہونے والے مالی سال کی صورتحال بیان کی گئی ہے۔ ا س کے مطابق صارفین کے ذریعہ خریداری میں ۹؍ فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے، سرمایہ کاری میں ہونے والی تخفیف ۱۰؍ فیصد سے زیادہ ہے اور تعمیراتی شعبے میں آنے والی تخفیف ۸؍ فیصد کے قریب ہے۔ گزشتہ مالی سال میں ہم اُلٹے قدموں سے ماضی کی طرف بڑھنے لگے۔ بقیہ دُنیا آگے بڑھتی رہی اور ہم پیچھے ہوتے چلے گئے۔ ایک ہندوستانی ایک بنگلہ دیشی سے کیوں پیچھے ہوگیا اس سوال کا جواب گزشتہ ۴۸؍ ماہ کے حالات میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اپریل ۲۰۲۱ء میں عام کاروبار، مینوفیکچرنگ، نقل و حمل اور مواصلات کے شعبوں میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔ یہ شعبے ۲۰۱۹ء کی سطح پر ہی رہے۔ یعنی تین سال میں کوئی ترقی نہیں۔ تعمیراتی شعبے نے دو سال گنوا دیئے۔ سیمنٹ، ریفائنری، اسٹیل اور ایسے ہی دیگر کلیدی شعبوں کی پیداوار مارچ ۲۰۱۷ء کی سطح پررہی۔ 
 موٹر گاڑیاں، مثلاً کاریں، ۲۰۱۶ء کی سطح پر رہیں یعنی اس شعبے نے پانچ سال گنوا دیئے۔ یہ کوئی ایسی صورتحال نہیں ہے جس کی توقع کی گئی ہو۔ دو پہیہ گاڑیوں کی فروخت دس سال پہلے کی سطح پر ہے۔ کمرشیل وہیکل (مثلاً ٹرک، ٹریکٹر وغیرہ) کا حال ۲۰۱۴ء کے حال سے بھی خراب ہے۔ 
 کیا مَیں نے جو کچھ بھی تحریرکیا ہے وہ کچھ نیا ہے؟ جی نہیں، اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ حقائق عوامی حلقوں میں موجود ہیں اور جو جس سیکٹر میں ہے وہ اپنا ہی نہیں دیگر سیکٹروں کا حال بھی جانتا ہے۔ اگر کسی سادہ لوح شخص کو ان حقائق کا علم نہ ہو تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ’’من کی بات‘‘ تو کی مگر یہ بات نہیں کی۔ جب تک آپ مسئلہ کو بطور مسئلہ تسلیم نہیں کرتے تب تک اس کے حل کی کوشش شروع نہیں ہوتی (یہ بات ڈاکٹر من موہن سنگھ نے گزشتہ سال اپنے ایک انٹرویو میںکہی تھی)۔ وزیر اعظم معاشی بحران کا اعتراف نہیں کرتے، اس پر گفتگو نہیں کرتے اور ان کے آس پاس کے لوگ بھی کچھ کہنے کی ہمت نہیں کرتے۔ اُن کی وزیر مالیات کے شوہر کو ایک اور مضمون لکھنا چاہئے جس میں از سرنو یہ وضاحت ہو کہ معیشت ڈوب رہی ہے۔ یہ مضمون کسی بڑے قومی اخبار میںشائع ہو۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مٹھی بھر لوگ مستفید ہورہے ہیں اور پوراملک متاثر ہورہا ہے۔ ملک کی دولت مخصوص ہاتھوں میں سمٹ گئی ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ ایشیاء کے دو امیر ترین افراد کا تعلق چین سے نہیں ہے جس کی معیشت ہندوستان کی معیشت سے چھ گنا بڑی ہے۔ یہ دو افراد گجراتی ہیں جو ہندوستان کے ’’ترقیاتی ماڈل‘‘ کی نمائندگی کررہے  ہیں۔    n 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK