Inquilab Logo Happiest Places to Work

نیتوں پر شک کرنے کا یہی مزاج رہا تو کانگریس کو فنا ہونے میں دیر نہیں لگے گی

Updated: November 29, 2020, 9:09 AM IST | Qutbuddin Shahid

گزشتہ دنوں ادھیر رنجن چودھری اور کلدیپ بشنوئی جیسے لیڈروں کے تنقیدی بیانات پر کانگریس کی خاموشی سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اب اسے خوشامد راس آنے لگی ہے۔کپل سبل، پی چدمبرم اور غلام نبی آزاد ایسے لیڈر نہیں ہیں کہ ان کی نیتوں پر شبہ کیا جائے اور انہیں اس سطحی اور تضحیک آمیزانداز میں نشانہ بنایا جائے جیسا کہ ادھیر رنجن چودھری اور کلدیپ بشنوئی نےکیا۔ اپنوں کی نیتوں پر شک کرنے کا یہی مزاج رہا تو کانگریس کو فنا ہونے میں دیر نہیں لگے گی

Congress
وقت کا تقاضا ہے کہ کانگریس اپنی خامیوں اور خوبیوں کا محاسبہ کرے اور عوام کی امیدوں پر کھرا اُترنے کی کوشش کرے

 وہ کوئی شخص ہو یا ادارہ، اگر اُسے خوشامد راس آنے لگے تو سمجھ لیجئے کہ اس کا زوال یقینی ہے۔گزشتہ دنوں ادھیر رنجن چودھری اور کلدیپ بشنوئی جیسے لیڈروں کے بیانات پر کانگریس کی خاموشی سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اب اسے خوشامد راس آنے لگی ہے۔کپل سبل، پی چدمبرم اور غلام نبی آزاد ایسے لیڈر نہیں ہیں کہ ان کی نیتوں پر شبہ کیا جائے اور انہیں  اس سطحی اور تضحیک آمیز انداز میں نشانہ بنایا جائے جیسا کہ چودھری اور بشنوئی نےکیا ۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی اندر سے خوف زدہ ہو تو اسے اپنے سائے سے بھی ڈر لگتا ہے۔ کپل سبل، پی چدمبرم اور غلام نبی آزادکی نیتوں پر شک کرکے کانگریس نے یہی ثابت کیا ہے کہ وہ اس وقت بہت زیادہ خوف زدہ ہے اوراب اسے اپنے سائے سے بھی ڈر لگتا ہے۔
  یہ وہ بے داغ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو کانگریس میں گزارا ہے اور اپنی صلاحیتوں سے کانگریس کو توانا کیا ہے۔ ان تینوں میں کپل سبل قدرے جونیئر ہیں لیکن پارٹی جوائن کرنے سے قبل ہی انہوں نے قومی سطح پر اپنی مضبوط شناخت بنا رکھی تھی۔۱۹۷۳ء میں آئی اے ایس کوالیفائی کرلینے مگر ملازمت کے بجائے اپنا ذاتی’لا فرم‘ قائم کرنے کا فیصلہ کرنے والے کپل سبل ۱۹۹۸ء میں راجیہ سبھا کیلئے منتخب ہوئے تھے۔۲۰۰۴ء میں باقاعدہ سیاسی میدان میں اُترنے اورکانگریس کے ٹکٹ پر چاندی چوک سے لوک سبھا انتخاب لڑنے والے کپل سبل اس سے پہلے تین مرتبہ سپریم کورٹ بار اسوسی ایشن کے صدر رہے اور ۹۰۔۱۹۸۹ء میں ملک کے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل بھی رہے۔ان کا یہ پروفائل ظاہرکرتا ہے کہ انہوں نے کانگریس سے فائدہ  اٹھانے کے بجائے اپنی صلاحیتوں سے کانگریس کو فائدہ پہنچایا ہے۔
 ۱۹۸۴ء میں لوک سبھا الیکشن جیتنے سے قبل پی چدمبرم تمل ناڈو میں یوتھ کانگریس کے سربراہ تھے۔   یہ الیکشن انہوں نے صرف ’کانگریس لہر‘ سے نہیں جیتا تھا بلکہ ان کی بھی اپنی ایک واضح شناخت تھی۔’انا ملائی یونیورسٹی‘ اور ’یونائیٹڈ انڈیا انشورنس کمپنی‘ کے بانی ’راجہ انا ملائی چھتیار‘ کے نواسے پی چدمبرم  نے ۱۹۶۸ء میں ہارورڈ بزنس اسکول سے ایم بی اے کیا تھا۔ا س  سے قبل مدراس لا کالج سے قانون میں گریجویشن کیا تھا ، بعد ازاںلویولا کالج چنئی سے قانون میں ماسٹرڈگری بھی لی تھی۔ان کےنانا کے بھائی ’راما سوامی چھتیار‘  ہندوستان کے ۲؍ اہم بینک ’انڈین بینک‘  کے بانی  اور ’انڈین اووَرسیز بینک‘ کے شریک بانی تھے۔ان کی اہلیہ نلنی چدمبرم خود سپریم کورٹ کی ایک کامیاب وکیل ہیں جبکہ ان کے خسر پی ایس کیلاشم سپریم کورٹ کے جج رہے ہیں۔ ان کے تعلق سے بھی یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ ان کی شہرت و مقبولیت کانگریس کی رہین منت ہے۔
 یونیورسٹی آف کشمیر سے زولوجی میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے والے غلام نبی آزاد نے۱۹۷۳ء میں محض ۲۴؍ سال کی عمر میں بلاک سطح پر کانگریس کے سیکریٹری بنائے گئے تھے۔ پارٹی نے محض ۲؍ سال میں ان کی صلاحیتوں کا لوہا مان لیا تھا لہٰذا انہیں جموں کشمیر میں پارٹی کے یوتھ ونگ کی کمان سونپ دی تھی۔ اس کے پانچ سال بعد ۱۹۸۰ء میں غلام نبی آزاد قومی سطح پر یوتھ کانگریس کے صدر منتخب قرار دیئے گئے۔اُسی سال انہوںنے مہاراشٹر کے ’واشم‘ پارلیمانی حلقے سے لوک سبھا کا الیکشن جیتا۔ پارٹی اور حکومت میں مختلف عہدوں پر رہنے کے بعد۲۰۰۵ء میں انہیں جموں کشمیر کا وزیراعلیٰ منتخب کیاگیا۔ ان کی انتظامی صلاحیتوں کے حوالے سے ایک بات بہت مشہور ہے کہ انہیں جس بھی ریاست کا انچارج بنایا جاتا ہے، وہاں کانگریس کی کامیابی یقینی سمجھی جاتی ہے۔ گزشتہ سال ہریانہ کی مثال سامنے ہے جہاں الیکشن سے قبل ہی یہ بات تسلیم کرلی گئی تھی کہ کانگریس کسی بھی طرح مقابلے میں نہیں ہے لیکن دنیا نے دیکھا کہ کانگریس نے بی جے پی کو ناکوں چنے چبوا دیئے تھے اور دُشینت چوٹالا کی جائز و ناجائز مطالبات کو تسلیم کرنے کے بعد ہی بی جے پی حکومت سازی کے قابل ہوسکی تھی۔ ایک اور اہم بات یہ کہ غلام نبی آزاد نے جو کچھ حاصل کیا، اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر حاصل کیا، ان کی کوئی سیاسی میراث نہیں تھی۔
 ان تینوں نے اگر کانگریس پارٹی میںتنظیمی سطح پر کسی تبدیلی کی بات کی تھی، تو پارٹی کے ذمہ داران کو یہ بات سمجھنی چاہئے تھی کہ یقینی طورپر انہوںنے یہ بات ذاتی مفاد کیلئےنہیں بلکہ پارٹی کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر ہی کہی ہوگی۔ مذکورہ لیڈروں کا شمارکانگریس کے اُن ۲۳؍ لیڈروں میں ہوتا ہے جنہوں نے ۳؍ ماہ قبل اعلیٰ کمان کو اسی حوالے سے ایک خط لکھا تھاا ور پارٹی کی روبہ زوال حالت  پر افسوس کااظہار کیا تھا۔ ان ۲۳؍ لیڈروں میں ششی تھرور، منیش تیواری، ہریانہ کے سابق وزیراعلیٰ بھوپندر سنگھ ہڈا،پنجاب کی سابق وزیراعلیٰ راجندر کور بھٹل، کرناٹک کے سابق وزیراعلیٰ ایم ویرپا موئلی اور مہاراشٹر کے سابق وزیراعلیٰ پرتھوی را ج چوہان،معروف ایڈوکیٹ وویک تنکھا، مکل واسنک، جتن پرساد،پی جے کورین، رینوکا چودھری، راج ببر اور ملند دیورا جیسے اہم نام شامل ہیں۔ پارٹی کے اتنے سارے اہم نام اگر کچھ کہہ رہے ہیں تو ضروری تھاکہ پارٹی اُس پر غور کرتی اور اُن مسائل کا حل تلاش کرتی۔ اس کے برعکس ان کے مقابلے پارٹی کے ۲؍ جونیئر لیڈر ادھیر رنجن چودھری اور  کلدیپ بشنوئی نے جس ہتک آمیز انداز میں اس پر تبصرہ کیا اور پر پارٹی خاموش رہی، یہ ثابت کرتا ہے کہ پارٹی خود کو قابل اصلاح نہیں سمجھتی۔
 ۲۰۰۹ء سے کانگریس مسلسل روبہ زوال ہے لیکن وہ اس زوال کو شاید تسلیم نہیں کر پارہی ہے۔ اُس الیکشن میں اسے ۲۸ء۵۵؍فیصد ووٹو ں کے ساتھ لوک سبھا کی ۲۰۶؍ نشستیں ملی تھیں۔  وہ کانگریس جو ۱۹۸۰ء اور۱۹۸۴ء میں بالترتیب ۴۲ء۶۹؍ فیصد (۳۵۳؍ سیٹ) اور ۴۹ء۱۰؍ فیصد (۴۱۴؍ سیٹ) ووٹ حاصل کرتی ہے، وہ ۲۰۱۴ء میں ۱۹ء۵۲؍ فیصد (۴۴؍ سیٹ) ووٹوں پرسمٹ جاتی ہے۔ پانچ سال بعد اس کی بنیاد اور کمزور ہوجاتی ہے اور اسے ۱۹ء۴۹؍ فیصد (۵۲؍ سیٹ) ووٹوں پر ہی اکتفا کرنا پڑتا ہے۔
 کانگریس میں اگر ہمت و جرأت ہے تو اسے اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ اس کی یہ حالت کیونکر ہوئی؟اسے غور کرنا چاہئے کہ کیا وہ ا پنے نظریات پر قائم ہے جس کی بنیاد سیکولرازم اور جمہوریت پر ہونے کا وہ دعویٰ کرتی ہے۔کانگریس تو خیر پہلے بھی کب مسلمانوں کی خیر خواہ تھی جو اَب اس سے امید کی جائے لیکن کم از کم اس بری حالت میں تو کبھی نہیں تھی، حتیٰ کہ نرسمہا راؤ کے دور میں بھی نہیں جن کے ظاہری اور باطنی نظریات پر کچھ کہنے اور سننے کی ضرورت نہیں ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعدعوامی سطح پر انہوں نے کم از کم یہ کہنے کی جرأت تو کی تھی کہ ’’بابری مسجد کی تعمیراسی جگہ پر ہوگی‘‘۔موجودہ کانگریس نے تو اس جرأت کا بھرم بھی توڑ دیا۔ کسی عمارت کا گر جانایا اس کا توڑ دیا جانا اتنی تکلیف کی بات نہیں ہے جتنی کہ اس کا حق ملکیت چھین لیا جانا اور تاریخ گواہ ہے جس دن بابری مسجد کے حق ملکیت سے مسلمانوں کو دستبردار کیا  گیا، ملک کا نام نہاد سیکولر سیاسی حلقہ پوری طرح سے خاموش رہا۔یہاں تک بھی غنیمت ہے کہ حق میں نہیں بول سکتے تو خاموش ہی رہیں.... لیکن سیکولرازم کے سرخیل ہونے کا دعویٰ کرنے والی کانگریس  خاموش بھی نہیں رہ سکی۔اس فیصلے پر بے باک گفتگو کے بجائے پرینکا گاندھی نے ’ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا خیر مقدم‘ کیا۔  سونیا، راہل اور پرینکا گاندھی کی سیکولرازم پر شک و شبہ کی گنجائش نہیں لیکن یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اب ان میں اپنی اُس میراث کو سنبھالنے کی طاقت نہیں رہی جو مہاتماگاندھی، مولانا آزاد اور پنڈت نہرو سے انہیں ملی ہے۔
 سچ تو یہ ہے کہ کانگریس آج وہی فصل کاٹ رہی ہےجو اس نے بویا ہوا  ہے۔فرقہ پرستی کی اس فصل کو دانستہ اور غیر دانستہ طورپر کھاد پانی اسی نے فراہم کیا ہے۔ وہ سمجھتی تھی کہ ان کی (فرقہ پرستوں کی) موجودگی اس کے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہوگی اور لوگ اس کے خوف سے اس کے دامن سے چپکے رہیں گے لیکن کھیت کی منڈیرپر لگائی گئی یہ بیل اب اتنی توانا ہوگئی ہے کہ اس نے کھیت کی پوری فصل کو ڈھانپ لیا ہے۔لاکھ کوششوں کے باوجود اب اس فصل کو (کانگریس کو)منڈیر کی اس بیل  اور اس کی مدد سے پنپنے والے جھاڑ جھنکاڑ سے  باہر نکلنے کا راستہ نہیں مل پارہا ہے۔ 
 مگر اب کانگریس کی حرکتوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس نے شاید باہر نکلنے کی امید ہی چھوڑ دی ہے، ورنہ وہ اپنا احتساب کرتی، اپنوں کی بات سنتی،  ان کی صلاحیتوں کا بہتر استعمال کرتی اور ان تمام کا منہ بند کرنے کا حکم صادر کرتی جو خوشامد پسندی کے ذریعہ اسے اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کررہے  ہیں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK