EPAPER
Updated: December 24, 2021, 7:24 AM IST | Shamim Tariq | Mumbai
یہ سوچنا غلط ہے کہ حق سے محروم کرنے یا اپنی خوشامد کرنے والوں کو نوازنے کے لئے کسی پر الزامات عائد کرنے والے کسی نہ کسی مصیبت میں گرفتار نہیں ہوتے۔ جو انسان کے محاسبے سے بچ جاتے ہیں وہ قدرت کے قہر کا شکار ہوتے ہیں۔
عدالتوں کے جج صاحبان ہم سب کے لئے قابل احترام ہیں۔ کسی جج کے صادر کئے ہوئے فیصلے کے خلاف اس کی یا اس سے اوپر کی عدالت سے رجوع کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جج صاحب قابل احترام نہیں ہیں۔ نظر ثانی کی درخواست کا مطلب صرف یہ ہے کہ جج صاحب بھی قابل احترام ہیں اور ان کا دیا ہوا فیصلہ بھی، مگر ممکن ہے فیصلہ صادر کرتے ہوئے کوئی نکتہ ان کی توجہ سے محروم رہا ہو اس لئے بہتر ہے کہ وہی اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں یا اعلیٰ عدالت ماتحت عدالت کے فیصلے پر حقائق کی روشنی میں دوبارہ غور کرے۔ ایسا مسلسل ہوتا ہے کہ اعلیٰ عدالت میں ماتحت عدالت کا فیصلہ بدل دیا جاتا ہے مگر اس سے جج صاحب کے وقار اور صلاحیت پر سوالیہ نشان نہیں لگتا۔ راقم الحروف کے علم میں پہلی مرتبہ یہ بات آئی ہے کہ ممبئی ہائی کورٹ کی ایک ایڈیشنل جج کو جنہوں نے اسی سال جنوری میں بچوں کے خلاف جنسی جرائم کے ایک معاملے میں عجیب و غریب فیصلہ دیا تھا مستقل جج بنانے سے سپریم کورٹ نے انکار کردیا ہے۔ یہ معاملہ اتنا غلیظ ہے کہ یہاں اس پر بحث کرنا یا اس کی تفصیل پیش کرنا مناسب نہیں ہے۔ بس یہ سمجھ لیجئے کہ ہائی کورٹ کی ایک جج صاحبہ نے ایک بچی کے خلاف جنسی جرم کا ارتکاب کرنے والے کو جس انداز سے بری کیا تھا اس کو سپریم کورٹ نے نہ صرف غلط کہا ہے بلکہ فیصلہ صادر کرنے والی کو آئندہ فیصلہ صادر کرنے کی حیثیت سے ہی محروم کردینے کا فیصلہ کیا ہے۔
دوسرا معاملہ الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک سبکدوش جج ایس این شکلا کا ہے۔ موصوف کے خلاف بدعنوانی کے معاملے میں سی بی آئی نے عدالت میں فرد جرم (چارج شیٹ) پیش کی۔ اخباری خبروں کے مطابق شکلا پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک پرائیویٹ میڈیکل کالج کو فائدہ پہنچایا تھا۔ حکومت کی اجازت یا منظوری کے بغیر یہ معاملہ درج نہیں ہوسکتا تھا۔ حکومت نے جب منظوری دی تو سی بی آئی نے شکلا اور کچھ دوسروں کے خلاف فرد جرم پیش کی۔ فردِ جرم کے مطابق پرساد انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ان ۴۶؍ میڈیکل کالجوں میں شامل تھا جنہیں بعض سہولتوں کی کمی کے سبب حکومت نے طلباء کو داخلہ دینے سے دو سال کے لئے روک دیاتھا۔ اس حکم کے خلاف ٹرسٹ نے سپریم کورٹ میں اپیل کی مگر پھر اپنی وہ رٹ پٹیشن واپس بھی لے لی جس میں حکومت کے حکم کو چیلنج کیا گیا تھا۔ ۲۴؍ اگست ۲۰۱۷ء کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ کے سامنے اسی معاملے میں دوبارہ ایک رِٹ دائر کی گئی جس میں بینچ نے کالج کے حق میں فیصلہ سنایا۔ اس بینچ میں جسٹس شکلا بھی شامل تھے۔
ان دونوں معاملات سے یہ یقین مستحکم ہوتا ہے کہ زندگی میں بھی اور عدالتی نظام میں بھی انصاف اپنا کام کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔ ممکن ہے کبھی کوئی اس کی گرفت سے بچ جائے یا مظلوم کو انصاف ملنے میں تاخیر ہو مگر انصاف ملتا ضرور ہے۔ البتہ عدالتوں کے باہر کسی کی تقرری، کسی کو اس کے حق سے محروم رکھنے یا اپنے آقا کے اشارے پر کسی کے خلاف محاذ آرائی یا سازش کرنے والے کبھی کبھی بچ بھی جاتے ہیں۔ ایسے کئی واقعات لوگوں کے علم میں ہیں کہ کسی مستحق کو اس کے حق سے محض اس لئے محروم رکھا گیا کہ فیصلہ کرنے والوں کے آقا نہیں چاہتے تھے کہ مستحق کو اس کا حق ملے۔ اس سلسلے میں جمہوری طریقے سے کئے گئے فیصلے کو بدل دینے کی مثالیں بھی سامنے آئی ہیں۔ ظاہر ہے ایسے لوگوں کے اوپر کوئی سپریم کورٹ نہیں ہے اور اگر ہو بھی تو حق سے محروم کردیئے جانے والے میں اتنی سکت یا طاقت نہیں ہے کہ وہ اس سے رجوع کرے اس کے باوجود انصاف کا قدرتی نظام اپنا کام کرتا رہا ہے ۔ اس لئے یہ سوچنا غلط ہے کہ حق سے محروم کرنے یا اپنی خوشامد کرنے والوں کو نوازنے کے لئے کسی پر الزامات عائد کرنے والے کسی نہ کسی مصیبت میں گرفتار نہیں ہوتے۔ جو انسان کے محاسبے سے بچ جاتے ہیں وہ قدرت کے قہر کا شکار ہوتے ہیں۔
ایسے ہی معاملات کی ایک کڑی اساتذہ کے اہلیتی امتحان (TET) کے امیدواروں کے نمبروں میں ہیر پھیر کرنے کے الزام میں مہاراشٹر اسٹیٹ کونسل آف ایگزامینشن (ایم ایس سی ای) کے کمشنر اور ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے کنسلٹنٹ کی گرفتاری بھی ہے۔ گرفتار شدگان پر الزام ہے کہ انہوں نے ۷۰۰؍ امیدواروں سے ۴؍ کروڑ ۲۰؍ لاکھ روپے رشوت کے طور پر وصول کئے۔ ان تمام مثالوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس ملک کا عدلیہ اور تعلیم کا محکمہ بھی پاک نہیں، دوسرے محکموں اور معاملات میں تو بدعنوانی ہی بدعنوانی ہے۔ ادب اور صحافت کے حلقے میں بھی دھاندلی بڑھ رہی ہے۔ مگر ان کے معاملات میں کوئی سپریم کورٹ یا کوئی محکمہ کارروائی نہیں کرتا۔ انتظامیہ، سیاست و اقتدار اور غنڈہ گردی کرنے والے یا سو کام خوشامد سے نکالنے والے جس کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ وہ ہمارے کام کا ہے اس پر انعام و اعزاز کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ جس کا ضمیر زندہ ہے اس کے بارے میں کہہ دیا جاتا ہے یا کچھ لوگوںسے کہلوا دیا جاتا ہے کہ وہ ہمارا مخالف ہے۔
سوال یہ ہے کہ کسی کے علمی ادبی کاموں کے مقام و مرتبے کا تعین کیا سیاسی کارکن یا ان کے ایجنٹ کریں گے؟ علم و ادب میں ایسے لوگوں کا دخیل ہونا معاشرہ کے ضمیر کا گلا گھونٹ دینا ہے۔ ان لوگوں کو یاد دلایا جانا ضروری ہے کہ کسی بادشاہ کے مقابلے میں جب بھی فردوسی، تلسی داس کا نام آتا ہے دل عقیدت سے تخلیق کاروں کو سلام پیش کرتا ہے۔ بادشاہوں کے کارنامے بھی پڑھے جاتے ہیں مگر عبرت حاصل کرنے اور دوسروں کو عبرت دلانے کے لئے۔ بادشاہوں یا موجودہ دور میں حکمرانوں کی جی حضوری کرنے والوں کا سرسری ذکر آتا بھی ہے تو اسی حیثیت سے کہ ان کی خوشامد اور سازشیں جب پرانے بادشاہوں کو دیمک کی طرح چاٹ گئیں تو آج کے حکمرانوں اور ان کی خوشامد کرنے والوں کو کیا بچائیں گی؟ یہ صحیح ہے کہ ایسے لوگ کم ہی گرفتار ہوتے ہیں یا ان کی ترقی رو کی جاتی ہے مگر کیا یہ کم ہے کہ ان کا شمار معاشرہ میں علم و ادب کی راہ سے پھیلنے والے ناسور میں ہوتا ہے۔ اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ یہ ناسور تیزی سے بڑھ رہا ہے یا پھیل رہا ہے تب بھی بڑی بات ہے۔n