EPAPER
Updated: October 17, 2021, 8:05 AM IST | Aakar Patel | Mumbai
سات سال میں ہم دُنیا کے کئی سرویز یا انڈیکس میں تسلسل کے ساتھ پچھڑ رہے ہیں، ایسے میں حکومت کو احتساب کی ضرورت ہے مگر وہ ہر رپورٹ کو بآسانی مسترد کردیتی ہے۔
چھ سال قبل یعنی ۲۰۱۵ء میں، بھوک کے عنوان پر تیار کئے جانے والے عالمی جدول (گلوگل ہنگر انڈیکس) میں ہندوستان کو ۵۵؍ واں مقام حاصل ہوا تھا۔ گزشتہ سال، یہ مقام ۳۹؍ منزلیں پیچھے چلا گیا اور ہمیں جو مقام یا پوزیشن حاصل ہوئی وہ ۹۴؍ ویں تھی۔ اس طرح ہندوستان، بنگلہ دیش، پاکستان اور نیپال سے بھی پیچھے ہوگیا۔ آگے بڑھنے سے پہلے عرض کردوں کہ یہ جدول تغذیہ کی کمی، بچوں کا کم وزن ہونا، بچوں کا قد چھوٹا ہونا اور بچوں کی شرح اموات کو سامنے رکھ کر تیار کیا جاتا ہے۔
اُس دقت یعنی ۲۰۲۰ء میں حکومت نے مذکورہ درجہ بندی کو تسلیم نہیں کیا جو عموماً بین الاقوامی ایجنسیوں مثلاً اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک کے مشاہدات اور ڈیٹا کی بنیاد پر تیار کیا جاتا ہے۔ اس وقت یہ بھی ہوا تھا کہ حکومت نے پارلیمنٹ میں اپنی کارکردگی کا پُرزور دفاع کیا تھا چنانچہ اس وقت کے وزیر زراعت پرشوتم روپالہ نے جو کچھ کہا تھا اسے دُہرانا بھی اچھا نہیں لگتا البتہ ان کی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ ’’ ایسی رپورٹوں کے تعلق سے ہمیں سنجیدہ اور رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ صحتمند بچوں کو بھی سروے میں شمار کرلیا جاتا ہے اس لئے ہمیں بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔‘‘
یہ ہوئی ۲۰۱۵ء اور ۲۰۲۰ء کی بات۔ اس سال ۲۰۲۱ء میں گلوبل ہنگر انڈیکس ہندوستان مزید سات مقام پچھڑ گیا اور اب ہم ۱۰۱؍ ویں پوزیشن پر ہیں۔ ہم سے بھی خستہ حالت میں جو ممالک ہیں ان کی تعداد صرف پندرہ ہے اور جن میں افغانستان، صومالیہ، یمن اور چند افریقی ممالک شامل ہیں۔ اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد ایک بار پھر ہماری حکومت نے اسے مسترد کردیا اور سروے کی اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ ملک میں غیر صحتمند بچوں کی تعداد ۱۴؍ فیصد سے بڑھ کر ۱۵ء۳؍ فیصد ہوگئی ہے۔ حکومت کے الفاظ میں: ’’اس رپورٹ میں اُن تمام کوششوں سے چشم پوشی کی گئی ہے جو کووڈ کے دور میں ملک کی مجموعی آبادی کو غذائی تحفظ فراہم کرنے کے باب میں کی گئیں جس کیلئے ایسے اعدادوشمار پیش کئے جاسکتے ہیں جن کی توثیق بھی کی جاسکتی ہے۔ جس سروے کی بنیاد پر یہ رپورٹ تیار ہوئی ہے اس میں ایک سوال بھی حکومت کی جانب سے فراہم کردہ راشن کے بارے میں نہیں تھا۔ اس بنیاد پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس سروے یا انڈیکس کا معیاری یا نمائندہ سروے ہونا بھی مشکوک ہے، ہندوستان کے بارے میں بھی اور دیگر ملکوں کے بارے میں بھی۔‘‘
حکومت غالباً یہ سمجھانا چاہتی ہے کہ وہ راشن ( پانچ کلو چاول یا گیہوں اور ایک کلو دال) کی فراہمی کے ذریعہ آبادی کے ۶۰؍ فیصد لوگوں (کم و بیش ۸۰؍ کروڑ ) تک پہنچا کر اپنی ذمہ داری پوری کررہی ہے۔ اس کا یہ دعویٰ درست ہے کیونکہ گزشتہ ایک سال سے مذکورہ راشن کی فراہمی جاری ہے مگر سوال یہ ہے کہ اتنے ساری ہندوستانی شہری ہر ماہ راشن کے لئے اتنی لمبی قطاروں میں کھڑے رہنے پر کیوں مجبور ہیں؟ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ لوگ بھوکے ہیں اور انہیں اس راشن کی ضرورت ہے۔
گزشتہ ہفتے اس کالم میں لکھا جاچکا ہے کہ خود حکومت کا سروے بہت سی باتوں کی چغلی کھاتا ہے۔ مثال کے طور پر، آسام، کرناٹک، گجرات، مہاراشٹر اور مغربی بنگال میں معتدبہ تعداد ایسے بچوں کی ہے جو غیر صحتمند ہیں۔ جن ریاستو ںکا سروے کیا گیا ان میں سے نصف تعداد ایسی ریاستوں کی تھی جہاں کے ہر تیسرے بچے (جس کی عمر پانچ سال سے کم ہے) کی صحت جسمانی نشوونما کے معیارات پر پورا نہیں اُترتی۔ یہ ایسا مسئلہ اور بحران ہے جس پر غوروفکر کرنے اور ضروری قدم اُٹھانا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ اس سے روگردانی نہیں کی جاسکتی۔ اس سے چشم پوشی بھی نہیں کی جاسکتی۔ اس کیلئے مرکز، ریاستی حکومتوں، سول سوسائٹی، غیر سرکاری اداروں وغیرہ کو مل جل کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر ہوکیا رہا ہے؟
جو ہو رہا ہے وہ اس کے برعکس ہے کہ حکومت دفاعی پوزیشن اختیار کرلیتی ہے اور ہر اُس رپورٹ یا سروے یا اعدادوشمار کو مسترد کردیتی ہے جس میں طرز حکمرانی سے بحث اور اس کی خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہو۔ جب اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ نے جمہوریت کے جدول میں ہندوستان ۲۶؍مقامات پچھڑ گیا اور ۲۷؍ سے ۵۳؍ ویں مقام پر چلا گیا تو حکومت نے اس پر پارلیمنٹ میں بحث کرنے سے انکار کردیا یہ کہتے ہوئے کہ موضوع کافی حساس ہے ۔ یہ بھی کہا کہ یہ معمولی ہے۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی آزادیٔ مذہب نے گزشتہ سال ہندوستان کو اُن پندرہ ملکوں میں شمار کیا جن کی جانب سے ’’تشویش لاحق ہے‘‘ (کنٹریز آف پرٹیکولر کنسرن) کیونکہ ملک میں اقلیتوں کو تحفظ فراہم نہیں کیا جارہا ہے تو حکومت نے کہا یہ رپورٹ جانبدارانہ اور ایک خاص طرز عمل یا خاص میلان کی عکاس ہے۔ اس سال بھی اقوام متحدہ کے مذکورہ ذیلی ادارہ نے ہندوستان کے بارے میں وہی کہا جو پچھلے سال کہا تھا۔ اسی لئے اس سال بعض پابندیوں کی بھی سفارش کردی گئی۔ جب فریڈم ہاؤس نے ملک کو ’’آزاد‘‘ سے ’’جزوی آزاد‘‘ کے زمرے میں ڈال دیا تو ہماری حکومت نے کہا کہ فریڈم ہاؤس کے سیاسی فیصلے نادرست اور مسخ شدہ ہیں۔
ان چند مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ہمارا ملک تقریباً ہر محاذ پر پچھڑ رہا ہے اور جو بھی نئی رپورٹ منظر عام پر آتی ہے، وہ ہم پر تنقید کرتی ہے مگر ہم اسے کسی نہ کسی زاویئے سے مسترد کرتے ہیں او ر اسے غلط بتاتے ہیں۔ بعض اوقات ہمارا دفاعی زاویہ بے حد کمزور ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جب گلوبل ٹیراریزم انڈیکس میں بتایا گیا کہ ہمارا ملک ۸؍ واں سب سے متاثرہ ملک ہے تو نیتی آیوگ نے کہا کہ وہ تنظیم ایک ایک ملک کے امن کی صورتحال کو کس طرح آنک سکتی ہے جب اس کے عملے میں صرف ۲۴؍ اراکین ہوں اور رضاکاروں کی تعداد بھی صرف ۶؍ ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ کم و بیش چار درجن جدولوں اور درجہ بندیوں میں ہمارا ملک پچھڑ گیا ہے۔ یہ ۲۰۱۴ء کے بعد سے مسلسل ہورہا ہے۔ جب بھی دیگر ملکوں کی درجہ بندی خراب ہوتی ہے تو وہ محاسبہ کرتے ہیں۔ ہم لوگ حقائق سے منہ چراتے ہیں اور یہ کہہ کر اپنا فرض پورا کردیتے ہیں کہ رپورٹ ہی غلط ہے ۔ کیا ہم یہ سمجھیں کہ حکومت صرف اتنا ہی کرسکتی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں؟ n