EPAPER
Updated: October 31, 2021, 1:13 PM IST | Shaikh Abdulghafoor | Mumbai
یہ ہے طرفہ تماشا۔ خلاء مسخر مگر پیٹ کا خلاء موجود۔ کتنے ہی خصوصی پروگرام جاری ہوئے، کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے مگر بھوک اپنی جگہ قائم ہے جس کے خلاف کووڈ کے بعد کے اِس دَور میں، جو معاشی بدحالی کا دور ہے، خصوصی جدوجہد درکار ہوگی
غربت اور بھوک۔ دُنیا ان دو مسائل سے نجات پانے میں کل بھی ناکام تھی، آج بھی ناکام ہے۔ دیکھا جائے تو یہ دو الگ الگ مسائل نہیں بلکہ ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ غربت ہی انسان کو بھوکا رہنے پر مجبور کرتی ہے اور بھوکا وہی رہتا ہے جو غریب ہو۔ کوئی انسان جان کر بھوکا نہیں رہتا (جسم کی فربگی کم کرنے کیلئے ایک دو وقت کا کھانا نہ کھانا الگ بات ہے)۔ ہر دور اور ہر ملک میں بھوک اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہی ہے اور اس مسئلہ کا حل اہل سیاست کی اولین ترجیحات میں رہا ہے مگر چاند اور مریخ تک رسائی کے مشن تو کامیاب ہوجاتے ہیں، غربت اور بھوک سے نجات کی کوشش کامیاب نہیں ہوتی۔ اس سے اہل سیاست کی بے دلی ظاہر ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ چاہتے بھی یہی ہیں کہ یہ مسئلہ برقرار رہے جس سے وعدوں کی نیرنگیاں وجود میں آتی ہیں۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، یہ مسئلہ ہر دور اور ہر ملک میں موجود رہا مگر گزشتہ ڈیڑھ سال میں اس نے سنگین صورت اختیار کرلی ہے۔ کورونا نے معیشت کے پیروں میں زنجیر ڈال دی، کئی ملکوں میں ہر چیز بند رہی، کرفیو جیسا ماحول رہا، لوگوں کی روزی روٹی چھن گئی، بڑے اور ترقی یافتہ ملکوں میں بھی بے روزگاری نے پر پھیلائے اور اہل اقتدار کو معاشی چیلنجوں کا سامنا ہوا۔ یہ صورت حال اب بھی برقرار ہے۔ چنانچہ جو غربت اور بھوک کی جو کیفیت پہلے تھی، اب اس میں زیادہ شدت آگئی ہے۔ اس سے قبل کہ، اس موضوع پر مزید گفتگو ہو، آئیے یہ جانتے چلیں کہ بھوک یا ہنگر سے کیا مراد ہے۔ کب بھوک کو بھوک کے طور پر درج کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی ہنگر رپورٹ کے مطابق، بھوک وہ اصطلاح ہے جو اُن وقفوں کو ظاہر کرتی ہے جب انسانی آبادی کے بعض حصوں کو غذائی عدم سلامتی یا عدم محفوظیت کا سامنا ہوتا ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ جب، آبادی کے بعض حصے پورا پورا دن بھوکا رہتے ہیں۔ یا تو ان کے پاس غذا کے انتظام کیلئے پیسے نہیں ہوتے یا غذا تک ان کی رسائی نہیں ہوتی۔ اس کو بھوک مانا جاتا ہے۔ جان بوجھ کر نہ کھانے اور بھوکا رہنے کو بھوکا یا بھوک سے نبردآزما قرار نہیں دیا جاتا۔ ہنگر یا بھوک کو اور بھی کئی زاویوں سے بیان کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر بھوک وہ ہے جس سے نشوونما میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کسی انسان کو روزانہ ۱۸۰۰؍ کیلوریز سے کم پر گزارا کرنا پڑے۔ ایک اور تعریف یہ ہے کہ جب غذائی سلامتی نہ ہو۔ غذائی سلامتی کیا ہے۔ غذا تک رسائی اور اس کا استعمال۔ جب کوئی شخص بآسانی غذا حاصل کرسکتا ہے، اسے تغذیہ سے بھرپور غذا میسر آتی ہے اور جتنی مقدار درکار ہو اُتنی مقدار میں دستیاب ہو تو اسے غذائی سلامتی کہا جاتا ہے۔ جب کسی انسان کو یہ سلامتی میسر نہ ہو تو اسے بھوک سے نبرد آزما کہا جائیگا۔ آپ یہ تو اخبارات میں پڑھتے ہی رہتے ہیں کہ شیئر بازار میں اُچھال سے کتنے ارب پتیوں کا فائدہ ہوا، دُنیا میں کتنے ارب پتی ہیں، ان کی مجموعی دولت کتنی ہے،وغیرہ۔ مگر یہ بات کم کم ہی پڑھنے اور سننے میں آتی ہے کہ دُنیا میں آج بھی ۸۱۱؍ ملین لوگوں کو بھوک کا سامنا رہتا ہے۔ وہ غذائی عدم سلامتی سے جوجھ رہے ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی میں بھوک یا غذاتک عوام کی نارسائی کم ہورہی تھی مگر اب اس میں ایک بار پھر اضافہ ہورہا ہے اور کووڈ کے بعد کی صورتحال تو اور بھی زیادہ سنگین ہے۔ کووڈ سے پہلے کے جس اضافے کی ہم نے بات کی وہ ۹ء۹؍ فیصد نوٹ کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ بھوک کا چیلنج محض غذائی قلت کا نتیجہ نہیں بلکہ دُنیا کے کئی ملکوں میں شورش، بدامنی، گروہی تصادم، جنگ وغیرہ کے علاوہ قدرتی آفات بھی غذائی قلت کا سبب بنتی ہیں۔ اسی لئے غذا کی قلت کے ساتھ ساتھ غذا تک رسائی کی کیفیت کو بھی بھوک کا سبب قرار دیا جاتا ہے کہ غذا تو ہے مگر جس شخص یا خاندان کو بھوک کا سامنا ہے وہ اس غذا تک پہنچ نہیں پاتا۔ ہندوستان کی مثال اس سلسلے میں غیر موزوں نہ ہوگی کہ ہمارے ملک میں سرکاری گوداموں میں اناج پڑا سڑتا رہتا ہے مگر وہ غریب لوگوں میں تقسیم نہیں ہوپاتا۔ عوامی تقسیم کاری نظام (پی ڈی ایس) کے اپنے مسائل ہیں اور بے حد پریشان کن ہیں جو گزشتہ چند برسوں کی اصلاحات کے باوجود عوام کیلئے اطمینان کا باعث نہیں بن رہے ہیں۔ بھوک اور تغذیہ کی کمی کی وجہ سے بچوں کی مناسب نشوونما نہیں ہوپاتی چنانچہ ان کی عمر اور قد کے مطابق جتنی نشوونما ان کی ہونی چاہئے وہ نہیں ہوتی۔ یہ مسئلہ غربت زدہ خاندانوں کو سخت ترین پریشانیوں سے گزارتا ہے۔ متعدد اندازوں کے مطابق دُنیا بھر میں پانچ سال سے کم عمر کے ۱۴؍ ملین ناقص تغذیہ کے پیدا کردہ مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ غربت اور اس کے نتیجے میں بھوک سے چھٹکارا پانے کیلئے جتنے سرمائے کی ضرورت ہے، حیرت انگیز طور پر دُنیا میں اس سے زیادہ سرمایہ موجود ہے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ ۴۲؍ ملین لوگ ایسے ہیں کہ جن کی بروقت امداد نہیں کی گئی تو فاقہ کشی انہیں موت کے دہانے پر کھڑا کردے گی۔ انہیں خاطرخواہ مقدار میں مناسب غذا پہنچانے کیلئے ۶؍ ارب ڈالر کی رقم درکار ہوگی۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلی نے سی این این کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ایلن مسک اور جیف بیزوز جیسے سرمایہ دار اپنی دولت کا علی الترتیب ۲؍ فیصد اور ۳؍ فیصد بھی ورلڈ فوڈ پروگرام کی نذر کردیں تو دُنیا کے مذکورہ ۴۲؍ ملین لوگوں کے آنسو پونچھے جاسکتے ہیں۔ اگر یہ نہیں تو امریکہ کے ۴۰۰؍ ارب پتی جو ہیں، ان کی دولت کا ایک فیصد سے بھی اس کار خیر کو انجام تک پہنچانے کیلئے کافی ہوگا۔ دُنیا میں کئی مخیر حضرات بھی ہیں جو اپنی دولت کا کچھ حصہ پابندی سے رفاہی کاموں پر صرف کرتے ہیں مگر ہر شخص اپنی پسند سے یا اپنی ترجیحات کے مطابق رقم تقسیم کرتا ہے جس کی وجہ سے کسی ایک مسئلہ کے حل میںمکمل کامیابی کے بجائے بہت سے مسائل کا جزوی حل نکلتا ہے۔ ’’سپر رِچ‘‘طبقے سے اضافی ٹیکسوں کے ذریعہ ارب پتیوں پر لازم کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی دولت کا ’’مقرر کردہ فیصد ‘‘ (جو حکومتیں طے کریں) غربت کے خلاف جدوجہد کیلئے ادا کریں۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے مگر اکثر دیکھا گیا ہے کہ حکومتیں اہل زر کی مطلب براری کرتی ہیں، انہیں سہولت اور ٹیکسوں میں بھاری رعایت دیتی ہیں جبکہ ضرورت اس کے برخلاف کرنے کی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر، بہت ممکن ہے کہ آج سے بیس سال بعد بھی ہم ایسا کوئی لکھاری قلم اُٹھائے تو وہ یہی سب لکھے جو ہم نے لکھا۔