Inquilab Logo Happiest Places to Work

ڈِجیٹل میڈیا پر قانونی شکنجہ کتنا درست؟

Updated: November 20, 2020, 10:53 AM IST | Shamim Tariq

ڈِجیٹل میڈیا کے مشمولات کی نگرانی کرنا یقیناً آزادیٔ اظہار پر حملہ ہے اور اس کی کسی طور اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ویسے بھی آزادیٔ اظہار کو بظاہر برقرار رکھتے ہوئے ہر سال بڑی تعداد میں صحافیوں اور اخبار نویسوں کو ملک دشمنی کے الزام میں گرفتار کرنے اور ویب سائٹس کے بلاک کئے جانے کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔

Digital Media
ڈیجیٹل میڈیا

ڈِجیٹل میڈیا یعنی نیٹ فلیکس، ایمازان پرائم، ڈزنی ہاٹ اسٹار سمیت سبھی (OTT) Over The Top پلیٹ فارم اور نیوز ویب سائٹس کو وزارت اطلاعات و نشریات کے ماتحت کردیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت خود ہی طے کررہی ہے کہ ڈِجیٹل میڈیا کیلئے کیا قانون اور ضابطے ہوں۔ ایک حلقے کا خیال بلکہ اصرار تھا کہ آن لائن میڈیا کو Self Regulation یعنی اپنا ضابطہ خود طے کرنے کی اجازت دی جائے مگر اس کا یہ مطالبہ نہیں منظور کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس سلسلے میں غور و فکر کرنے سے یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ صحافتی اداروں کے بڑے تجارتی گھرانوں کے قبضے میں چلے جانے اور کچھ دوسرے عوامل کے سبب متوازی میڈیا کے طور پر آن لائن میڈیا یا ڈِجیٹل میڈیا کو مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ مگر دھیرے دھیرے یہ ہوا کہ اخبارات سے لوگوں کو جو شکایات تھیں ان سے زیادہ شکایات ڈِجیٹل میڈیا سے پیدا ہوگئیں۔ اس کی معقول وجہ بھی ہے۔ ڈِجیٹل میڈیا پر ہرکس و ناکس نے بے پر کی اڑانا شروع کردیا تھا۔ جب ڈِجیٹل میڈیا پر بے پر کی اڑانے کا سلسلہ دراز ہوا اور افراد و انجمنوں کے جذبات مجروح ہوئے تو حکومت اور عدالت سے شکایات کی جانے لگیں۔ کم از کم ۴۰؍ معاملات میں حکومت کو عدالت میں جوابدہ ہونا پڑا۔ یہاں یہ مشکل پیدا ہوئی کہ اخبارات کی شکایات کے لئے پریس کونسل آف انڈیا، نیوز چینلوں کے لئے براڈ کاسٹرس اسوسی ایشن، اشتہارات کے لئے ایڈورٹائزنگ اسٹینڈرڈس کونسل آف انڈیا اور فلموں کے لئے سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفکیشن وغیرہ موجود ہے مگر آن لائن میڈیا کے لئے کوئی قانون، ضابطہ یا ادارہ موجود نہیں ہے جو شکایات کو سن کر ان کا مداوا کرسکے۔ اسی لئے سدرشن ٹی وی معاملے میں وزارت اطلاعات و نشریات نے اپنے حلف نامے میں کہا تھا کہ ٹی وی چینلوں سے زیادہ آن لائن میڈیا کو قانون اور ضابطے کا پابند بنائے جانے کی ضرورت ہے۔ او ٹی ٹی پلیٹ فارم سے تعلق رکنے والے پندرہ اہم یا بااختیار افراد اس سے پہلے ہی اپنے لئے خود ضابطہ تیار کرنے یا قانون بنانے کی خواہش کا اظہار کرچکے تھے جس کو وزارت نے نامنظور کردیا تھا۔ اب جبکہ حکومت نے نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے :
• نیٹ فلیکس، ایمازان پرائم جیسے او ٹی ٹی پلیٹ فارم اور ڈِجیٹل میڈیا کے مشمولات پر حکومت کی نظر رہے گی۔
• سبھی آن لائن میڈیا اب وزارت اطلاعات و نشریات کے ماتحت ہوں گے۔
• اپنے پروگراموں کو پیش کرنے سے پہلے ان کو حکومت سے اجازت لینا پڑسکتا ہے جیسا کہ فلموں کے ریلیز کئے جانے سے پہلے ضروری ہوتا ہے۔
 آن لائن میڈیا کو اپنے لئے ضابطہ یا قانون خود بنانے کی اجازت دینے کے بجائے وزارت اطلاعات و نشریات کے دائرئہ اختیار میں لائے جانے کو بعض لوگوں نے ’’ آزادیٔ اظہار ‘‘ پر حملہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ او ٹی ٹی پلیٹ فارم اور نیوز پورٹل پر نظر رکھنے کے لئے کوئی قانونی ادارہ نہیں ہے مگر حکومت تعزیرات ہند کی دفعہ ۳۰ - ۴۰ ؍ کے تحت آن لائن میڈیا کو قانون توڑنے والوں سے بچا سکتی ہے اور اگر وہ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو ان کے خلاف کارروائی بھی کرسکتی ہے۔
 میڈیا اپنے ہر روپ میں سنجیدگی، ایمانداری اور خوش سلیقگی کا مطالبہ کرتا ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں ہر زبان کی صحافت اور الیکٹرانک و ڈِجیٹل میڈیا میں ایسے لوگوں کی بہتات ہوئی ہے جو اپنے کام کے اہل ہیں نہ ایماندار۔ ایک تکلیف دہ بات یہ بھی ہے کہ اب ایسے لوگ وبا کی طرح پھیل رہے ہیں جو صحافت اور ایمانداری کی وابستگی  سے واقف نہیں ہیں۔ دہلی میں ایک بڑے اخبار کے مدیر سے بات ہورہی تھی، موصوف نے مجھ سے پوچھا کہ اگر مجھے اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی کارکردگی سے تشفی نہ ہو تو کیا کروں؟ میں نے جواب دیا کہ ان کی تربیت بھی کیجیے اور ان کے کاموں کی نگرانی بھی۔ اس کے باوجود کسی کی بدنیتی یا غلطی ظاہر ہوجائے تو اس کو تسلیم کیجئے۔ اپنے ماتحت کے کاموں کے لئے معذرت کرنا بھی اس کے لئے ایک سبق ثابت ہوسکتا ہے۔ ایک شریف آدمی کو شرمندہ کرنے کیلئے یہی بہت ہے کہ اس کو دکھایا جائے کہ اس کی بدنیتی اور غلطی کیلئے وہ شخص معذرت کررہا ہے جس کی ماتحتی یا نگرانی میں وہ کام کررہا ہے۔ 
 بہرحال ڈِجیٹل میڈیا کے عروج کی ایک وجہ اگر یہ ہے کہ وہ سچائیاں سامنے آجاتی ہیں جنہیں بڑے اخبارات یا مقبول میڈیا میں سنسر کردیا جاتا ہے تو دوسری وجہ یہ ہے کہ کچھ ایسے لوگوں نے جنہیں زبان نہیں آتی، ایمانداری سے  ازلی بیر ہے، خبر رسانی اور تبصرہ نگاری سے جن کا مزاج میل نہیں کھاتا وہ ڈِجیٹل میڈیا کے ذریعہ کچھ لوگوں کو دھونس دینا، روپیہ بٹورنا اور کچھ ایسے لوگوں کی تشہیر کرنا چاہتے ہیں جن کی تشہیر حق و انصاف کا قتل ہے۔
 حکومت نے ممکن ہے دونوں پہلوئوں کو سامنے رکھتے ہوئے ڈِجیٹل میڈیا کو وزارت اطلاعات و نشریات کے زیر اختیار لانے کا فیصلہ کیا ہو مگر تمام آن لائن میڈیا کو رجسٹریشن کے لئے مجبور کرنا یا رجسٹریشن کو لازم بنانا تقریباً ناممکن ہے۔ ایسا ہوا تو غیر ملکی کمپنیاں ہندوستانی کمپنیوں اور اشخاص پر سبقت لے جائیں گی۔ اسی طرح ڈِجیٹل میڈیا کے مشمولات کی نگرانی اور اس میں کانٹ چھانٹ کرنا یقیناً آزادیٔ اظہار پر حملہ ہے اور اس کی کسی طور اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ویسے بھی آزادیٔ اظہار کو بظاہر برقرار رکھتے ہوئے ہر سال بڑی تعداد میں صحافیوں اور اخبار نویسوں کو ملک دشمنی کے الزام میں گرفتار کرنے، انٹرنیٹ شٹ ڈائون اور ویب سائٹس کے بلاک کئے  جانے کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں مگر دوسری طرف ایسے لوگوں کے بچائے جانے یا طرح طرح سے ان کی مدد کئے جانے کے واقعات بھی بہت ہیں جو فرقہ پرستی اور کردار کشی کے رجحان کو پروان چڑھاتے ہیں۔ ارنب گوسوامی کو جس طرح سپریم کورٹ سے ضمانت ملی وہ ایسے ہی واقعات کی ایک مثال ہے۔
  او ٹی ٹی پلیٹ فارم اور ڈِجیٹل میڈیا کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے ان میں ایمانداری اور خوش سلیقگی پیدا کرنا اس مرض کا واحد علاج ہے جس کیلئے حکومت نے وزارت اطلاعات و نشریات کے قوانین کا سہارا لیا ہے۔ یہ غلط علاج ہے اس سے مرض بھی بڑھے گا اور اس کے سائیڈ افیکٹس بھی ہوں گے۔ حکومت ہی نہیں وہ تمام لوگ بھی اس کیلئے  مجرم ہیں جو میڈیا کو صرف اپنی تشہیر کے حوالے سے دیکھتے ہیں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK