EPAPER
Updated: December 27, 2019, 5:13 PM IST
| Mohammad Ameen Hasani Nadvi
وہ چند مشورے جو مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے حکومت کے ذمہ داروں کو دیئےتھے۔ یہی وہ مشورے ہیں جن پر عمل ملک کی موجودہ صورتحال کو بھی بدل سکتا ہے اوربھنور میں پھنسی ملک کی کشتی کو ساحل تک پہنچا سکتا ہے۔ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ اپنے کو تاریخ کا ایک طالب علم کہتے تھے۔ تاریخ آپ کا خاص موضوع تھا، آپ نے ملکوں کی تاریخ بھی پڑھی، قوموں کی تاریخ بھی پڑھی، اور ادیان ومذاہب کی تاریخ بھی پڑھی، قوموں کے عروج وزوال کے اسباب ،ملکوں کی ترقی وتنزلی کے محرکات، اور ادیان ومذاہب کے پھیلنے اور سمٹنے کی وجوہات سے آپ خوب واقف تھے۔
تاریخ کا یہ مطالعہ تھا جس نے آپ کو سوچنے سمجھنے کا ایک الگ انداز دیا، خطرات کو بھانپنے کی غیر معمولی صلاحیت دی اور سماج میں پھیلتی بیماریوں اور ملک میں پھیلتے امراض کی نشاندہی کا غیر معمولی سلیقہ دیا، خطرات سے کیسے نمٹا جائے ،بیماریوں پر کیسے قابو پایا جائے، اور امراض کو بڑھنے سے کیسے روکا جائے، اس کی تدابیر آپ کی تحریروں اور تقریروں اور وزرائے اعظم کو لکھے گئے خطوط میں ملتی ہیں، ان کو دیکھ کر عقل حیرت میں پڑ جاتی ہے کہ اپنے دعوتی، اصلاحی، تدریسی وتصنیفی کاموں کے باوجود ملک کے حالات پر کتنی گہری نظر رکھتے تھے، اور ملک کی ترقی ،خوشحالی، یکجہتی، سالمیت، امن وامان کے لئے کتنے فکرمند رہتے تھے، اور اس کے لئے جو کچھ کرسکتے تھے کرتے تھے ۔
ملک کے لئے آپ کی فکرمندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کی آخری علالت کے دوران عیادت کے لئے اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی جب ندوہ آئے تو مولانا نے ان سے کہا :’’اٹل جی !خدا کے ہاں سیاست نہیں چلتی خلوص چلتا ہے ،سچائی چلتی ہے،خلوص کے ساتھ کام کیجئےکامیابی قدم چومے گی ،ترقی کی راہیں کھلیں گی اور فتح وکامرانی آپ کے قدم سے قدم ملا کر چلے گی ،اوپر والے نے آپ کو اتنا بڑا ملک دیا ہے وہ اس ملک کے بارے میں آپ سے پوچھے گا بھی،آپ کو یہ ایک موقع ملا ہے ،کہ آپ اس ملک کو اتنی ترقی دیں اور اس کو اتنا خوشحال اور پرامن بنائیں کہ لوگ دوسرے ملکوں میں جانے کے بارے میں سوچیں بھی نہیں۔
ایک مرتبہ ملک کے سابق وزیر اعظم وشوناتھ پرتاپ سنگھ کوجو اس وقت یوپی کے وزیراعلیٰ تھے، اور مرادآباد میں عید گاہ کا سانحہ ابھی گزرا ہی تھا، لکھنؤ کے ایک جلسہ میں ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
’’میرا ہاتھ آپ کے گریبان تک تو نہیں پہنچ سکتا لیکن آپ کے دامن تک ضرور پہنچ سکتا ہے، میں آپ کا دامن پکڑ کر یہ ضرور کہوں گا کہ خدا کے لئے مجھے اس لائق رکھئے کہ میں باہر کا سفر کرسکوں، ملک کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اور یہاں کی بدامنی کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے باہر کا سفر کرنے کی ہمت نہیں ہوتی ،میں کیسے لوگوں کا سامنا کروں گا، میں کیسے ان کے سوالات کے جوابات دوں گا ،جب وہ یہاں کی بدامنی کے بارے میں پوچھیں گے ،جب وہ یہاں کے تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان کے بارے میں سوال کریں گے ،جب وہ یہاں کی بڑھتی ہوئی فرقہ وارایت کی لہر کے بارے میں پوچھیں گے، تو میں کیا کہوں گا؟سچ کہہ نہیں سکتا کیوں کہ اس سے ملک کی بدنامی ہوگی ،جھوٹ بول نہیں سکتا کیوں کہ میرا مذہب مجھے اس کی اجازت نہیں دیتا ۔‘‘
ایک خط میں اندرا گاندھی کو لکھا۔
’’ ملک کی حفاظت صرف تین باتوں سے ہوگی سچے سیکولرزم ،صحیح جمہوریت اور ہندومسلم اتحاد، یہی تین راستے ہیں جن سے ملک بچ سکتا ہے۔ مولانا نے ان کی توجہ اس بات کی طرف مرکوز کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک کو تین خطروں کا سامنا ہے! پہلا خطرہ ظلم وتشدد کا رجحان ،انسانی جان ومال اور عزت وآبروکی بے قیمتی ۔مولانا نے تاریخی حوالہ سے یہ بات بتائی کی کہ ظلم وسفاکی کے نتیجہ میں بڑی سے بڑی حکومتیں ختم ہوگئیں اور وہ داستانِ پارینہ بن گئیں اگر اس طرف توجہ نہ کی گئی تو نہ ملک بچے گا نہ قوم ،اس بات کے مہاتماگاندھی بھی سخت مخالف تھے اور اس سے شدید خطرہ محسوس کرتے تھے،اس لئے کہ آگ کو جب باہرکی کوئی چیز کھانے کو نہیں ملتی تو وہ اپنے کو کھانے لگتی ہے، فرقہ وارانہ منافرت اور تشدد فرقوں سے آگے بڑھ کر ذاتوں طبقوں اور پھر خاندانوں اور افرادمیں منتقل ہوجائے گا ،اور پھر ملک کو تباہی سے کوئی نہیں بچاسکتا،ملک اس وقت ایک ایسے بحران اور ایسے خطرہ سے دوچار ہے جس کی مثال پچھلی تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔
دوسرا خطرہ ہندواحیائیت کی تحریک ہے، اس سےہندومسلم میں خطرناک صورتحال پیدا ہوگی، نئی کشمکش پیدا ہوگی، نئے مسائل سامنے آئیں گے، جن کا متحمل نہ ملک ہوسکتا ہے نہ ہی قوم۔
تیسرا خطرہ اخلاقی گراوٹ ہے اوریہ گراوٹ اپنی آخری انتہا کو پہنچ گئی ہے، قدم قدم پر رشوت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، عدالتوں میں، دفتروں میں ، پولیس تھانوں میں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں بغیر رشوت کے کام نہیں ہوتا۔ پیسہ کے ذریعہ ہر مجرم کو بری کرایا جاسکتا ہے اور ہر شریف انسان کو پھنسایا جاسکتا ہے، ہر طرح کا غلط فیصلہ کیا جاسکتا ہے ،ہر جگہ فساد کرایا جاسکتا ہے، یہاں تک کہ ملک کے راز بھی بیچے جاسکتے ہیں۔ دوائوں اور غذائوں میں ملاوٹ ہورہی ہے، طبی امدا ملنا مشکل ہوگیا ہے، سنگدلی اپنی انتہاء کو پہنچ چکی ہے، ایسی صورت میں ملک تنزلی کی طرف بڑھ رہا ہے، لوگ زندگی سے عاجز ہیں ،اور افسوس اور شرم کی بات ہے کہ لوگ انگریزوں کے دور غلامی کو یاد کررہے ہیں، یہ تینوں چیزیں فوری توجہ کی مستحق ہیں اور انہی کی بنیاد پر مستحکم اور دیرپا حکومت قائم ہوسکتی ہے ۔
حضرت مولانا نے اس وقت کے وزیر اعظم چندرشیکھر کو ایک خط لکھا اوران کو ان باتوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا ’’انسانی، اخلاقی اور سچی حب الوطنی کی بنیاد پر عوام سے تعلقات بڑھائے جائیں ،جس میں فرقہ وارانہ رواداری، احترام انسانیت اور بقائے باہم کی اپیل کی جائے اور نصابی کتابوں سے زہرناک مواد نکالا جائے تاکہ نوجوان نسل کا ذہن صاف ہوسکے ،ہندوستانی پریس (پرنٹ میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا)خبریں دینے اور تبصرہ کرنے میں اکثر غیر ذمہ دارانہ روش اختیار کرتے ہیں اور ان کی وجہ سے پبلک کا ذہن متاثر بلکہ مشتعل ہوتا ہے اور بجائے قرب واعتماد حاصل ہونے کے نفرت و حقارت اور انتقامی جذبہ پیدا ہوتا ہے، وہ رائی کا پربت بناتے ہیں اور واقعہ کی یکطرفہ تصویر دکھاتے ہیں۔جب تک پریس اور ذرائع ابلاغ پر قابو نہیں پایا جائے گا اور ان کا صحیح استعمال نہیں ہوگا ملک کی آبادی کے مختلف عناصر کی یہ دوری اور ایک دوسرے کے خلاف بداندیشی اور بدگمانی دور نہیں ہوگی۔ پولیس کی اخلاقی و انسانی تربیت ہونی چاہئے، ان میں خدمت واعانت وہمدردی کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے اور پولیس کو ایک ایسے شریفانہ ادارہ وہمدرد انسان اپنے ہم وطنوں کے خادم کی شکل میں تبدیل کردینے کی کوشش کرنا چاہئے ،تاکہ لوگوں کا ان کے بارے میں تصور بدلے اور وہ ان کو اپنا محافظ ومعاون سمجھیں ان کے ہوتے ہوئے کوئی کسی پر ظلم وزیادتی نہ کرسکے۔ ‘‘
حضرت مولانا نے اپنی ایک تقریر میں کہا۔
’’ ملک کی تین چولیں اگر بیٹھ جائیں تو ملک باقی رہے گا اور وہ تین چولیں ہیں ایجوکیشن ، پولیس اور پریس یہ تینوں چیزیں ایسی ہیں اگر یہ درست ہوجائیں تو پھر کوئی بڑا خطرہ نہیں، آدمی پڑھ کر نکلے تو روشنی کا سبق پڑھ کر نکلے، انسان کی عزت کا سبق پڑھ کر نکلے اور اس کے بعد پولیس جس میں خدمت کا جذبہ ہو ،تعاون کا جذبہ ہو ،پریس جو حکومت کو عوام کے مسائل سے آگاہ کرے اور عوام تک صحیح خبریں پہنچائے۔‘‘
حضرت مولانا نے انتقال سے کچھ وقت پہلے پیام انسانیت کے ناگپور کے ایک اہم اجلاس سے جس میں فوج کے اعلی افسران ،سابق وزراء ، اور ایم ایل اے اور غیر مسلم حضرات موجود تھے بڑے درد اور قوت سے یہ بات کہی تھی:
’’ اس وقت ملک کے سامنے سب سے بڑا خطرہ نہ جنگ کا ہے نہ کسی بیرونی طاقت کے حملہ کا ، اگر کوئی بڑا خطرہ ہے تو و ہ انسان سے انسان کی نفرت کا ہے ،اس کے پھیلانے اور اس کو روکنے کے لئے محدود سے محدود کوشش بھی اثر انداز ہوسکتی ہے جیسے کسی صاف وشفاف پانی میں ایک چٹکی بھر نمک یا ایک چٹکی شکر ڈال دی جائے تو پورے پانی کا مزہ بدل جاتا ہے۔‘‘
حضرت مولانا نے یہ بات صراحت سے کہی کہ ہم کسی پارٹی یا اقتدار کی حمایت یا مخالفت کے جذبہ سے یکسر آزاد ہوکر اور بغیر کسی جانبداری کے ان حقائق کی طرف روشنی ڈالتے ہیں کہ اہل ملک کی جان ومال اور عزت وآبرو کا تحفظ ،سکون کااور فضا کے اعتدال کا ہر قیمت پر باقی وقائم رہنا ضروری ہے، اور اگر اس ملک میں مذہبی اقلیتیں پائی جاتی ہیں تو ان کے مذہب ،معابد،عائلی قانون، اور اگر کسی اقلیت کو اپنی زبان عزیز ہے اور اس میں اس کا مذہبی وثقافتی سرمایہ ہے تو اس کا اور اس کے رسم الخط کا تحفظ ضروری ہے، اس لئے کہ ایک بڑے سیاسی مبصر کے بقول : تحفظ ہی کافی نہیں تحفظ کا احساس اور اطمینان بھی ضروری ہے۔‘‘
دانشور اور مذہبی پیشوائوں کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’جب کسی دور میں اخلاقی گراوٹ کا ایسا دورہ پڑتا ہے تو اس وقت دو طبقے میدان میں آتے ہیں ،ایک مذہبی پیشوائوں کا طبقہ ،دوسرا دانشوروں کا طبقہ، اس وقت بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہبی پیشوا اور مذہبی انسان اور دانشور میدان میں آئیں ،وہی اس وقت معاشرہ کو بچاسکتے ہیں ،یہ ایک تاریخی حقیقت ہے ،اور تجربہ ہے کہ فساد کی یہ لہر اور قتل وبدامنی کا یہ طوفان پھر ان عبادت گاہوں اور مطالعہ وتصنیف اور سیاست وصحافت کے ان حصاروں اور قلعوں کو بھی نہیں چھوڑتا ۔