EPAPER
Updated: December 21, 2021, 8:24 AM IST | hasan kamal | Mumbai
کانگریس اور شیو سینا کا اتحاد کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ اتحاد یا گٹھ جوڑ ماضی میں کئی بار بنا اور کئی بار ٹوٹا۔ شیو سینا بنانے کیلئے بال ٹھاکرے کی حوصلہ افزائی سب سے پہلے مہاراشٹر کے کانگریسی چیف منسٹر وسنت دادا پاٹل نے ہی کی تھی۔
یک نیوز چینل پر گفتگو کرتے ہوئے شیو سینا کے ترجمان اور مراٹھی کے جریدے’’سامنا‘‘ کے ایڈیٹر سنجے رائوت نے کہا کہ مہاراشٹر کی مہا وکاس اگھاڑی یا ایم وی اے کو یوپی اے کا چھوٹا روپ سمجھا جائے۔ خیال رہے کہ یو پی اے کانگریس کی قیادت میں قائم کئی اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کا نام ہے۔ عام حالات میں اسے ایک سرسری بیان سمجھا جاتا۔ لیکن ملک کی موجودہ سیاسی فضا، مرکزاور ریاست میں چلنے والی کشاکش اور بالخصوص پانچ صوبوں کے مجوزہ اسمبلی انتخابات کی روشنی میں اس بیان کو سرسری نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ یاد رکھنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ ان دنوں ممتا بنرجی مہاراشٹرمیں آئی ہوئی تھیں اور انہوں شیو سینا چیف اُدھو ٹھاکرے اور این سی پی چیف شرد پوار سے ملنے کی خواہش بھی ظاہر کی تھی۔ خاص بات یہ ہے کہ ُادھو ٹھاکرے نے علالت کا عذر کرکے ان سے ملنے سے معذرت کر لی تھی۔ شرد پوار ان سے ضرور ملے تھے اور مبینہ طور پر دیدی نے ان سے کہا تھا کہ یو پی اے ہے کہاں اور یہ کہ اب تو بی جے پی کے خلاف اپوزیشن کا تیسرا محاذ بننا چاہئے۔ مبینہ طور پر دیدی نے یہ اشارہ بھی دیا تھا کہ اس تیسرے محاذ کی قائد وہی ہوں گی۔ ان حالات میں سنجے رائوت کے بیان کے معنی بالکل بدل جاتے ہیں۔ یہی نہیں یہ خبریں بھی گشت کر رہی تھیں کہ دیدی کے الیکشن منیجر پرشانت کشور(جنہیں اب کچھ لوگ پریشان کشور کہنے لگے ہیں) چاہتے تھے کہ شیو سینا گوامیں ٹی ایم سی کے ساتھ چناوی سمجھوتہ کر لے۔
کانگریس اور شیو سینا کا اتحاد کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ اتحاد یا گٹھ جوڑ ماضی میں کئی بار بنا اور کئی بار ٹوٹا۔ شیو سینا بنانے کے لئے بال ٹھاکرے کی حوصلہ افزائی سب سے پہلے مہاراشٹر کے کانگریسی چیف منسٹر وسنت دادا پاٹل نے ہی کی تھی۔ مہاراشٹر میں کانگریس کے ایک اور بڑے لیڈر اور مسز اندرا گاندھی کے قریبی ساتھی ایس کے پاٹل بھی شیو سینا پر مہربان تھے اور ایمر جنسی کے زمانے میں انہوں نے ہی مسز گاندھی اور بالا صاحب میں صلح صفائی کروائی تھی۔ پھر وی پی نائیک اور ان کے بیٹے سدھیر نائیک نے بھی شیو سینا سے قریبی رشتے رکھے۔شیو سینا اور کانگریس کے رشتوں میں ایک لمبی دراڑ اس وقت ضرور آئی جب شیو سینا لال کرشن اڈوانی کی رام رتھ یاترا میں شامل ہو گئی۔ اس کے بعد ہر اسمبلی اور پارلیمانی الیکشن میں شیو سینا اور بی جے پی میں اتحاد قائم رہا۔ یہ اتحاد شاید اب بھی قائم رہتا لیکن اگر اُدھو ٹھاکرے کی بات مانی جائے تو بی جے پی کے ایک بڑے لیڈر کی ’’دغابازی‘‘ کی وجہ سے ٹوٹ گیا اور ایسا ٹوٹا کہ اب اس کے دوبارہ جڑنے کاامکان روز بروز کم ہوتا جارہاہے۔ شیو سینا کو اب کانگریس سے اتحاد میں دو فوری فائدے نظر آرہے ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب سے پارٹی نے بی جے پی کو اپنے کندھے سے اتار پھینکا ہے تب سے مہاراشٹر میں بی جے پی کی طاقت کم اور شیوسینا کی طاقت زیادہ ہوئی ہے۔ دوسرے یہ کہ شیو سینا کو احساس ہو چلا ہے کہ مہاراشٹر میں اس کا اقتدار صرف اسی صورت میں برقرار رہ سکتا ہے جب کانگریس اوراین سی پی اس کے ساتھ رہیں۔
دیدی کے تیسرے محاذ کی تجویز ماننے میں شرد پوار کا تذبذب دیکھ کر کچھ لوگوںکو بہت حیرانی ہوئی۔ کیونکہ ابھی بہت دن نہیںہوئے جب شرد پوار بھی یو پی اے سے بہت زیادہ مطمئن نہیں دکھائی دیتے تھے۔ بلکہ کئی لوگ جن میں شیو سینا کے لیڈر بھی شامل تھے،یہ کہہ رہے تھے کہ متحدہ اپوزیشن کی قیادت کے لئے شرد پوار ہی موزوں ترین شخصیت ہیں۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو اس تذبذب میں کوئی حیران کن بات نہیں تھی۔ شرد پوار ایک جہاندیدہ سیاست داں ہیں۔ انہوں نے سیاست کے کئی سردو گرم جھیلے ہیں۔انہیں وہ سب کچھ مل چکا ہے، جس کی کوئی لیڈر تمنا کر سکتا ہے۔ انہیں اب اپنے لئے کچھ نہیں چاہئے۔ ہاں وہ یہ ضرور چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹی سپریاسولے کا سیاسی مستقبل مستحکم ہو جائے۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کے بعد این سی پی آج جیسی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔ اس کی لیڈر شپ کے بھی کئی دعویدار ہوں گے اور ضروری نہیں کہ سب سپریا کی لیڈر شپ مان لیں۔ سپریا کو شیو سینا میں بھی بلند ترین مقام نہیں مل سکتا۔ یہ مقام ٹھاکرے خاندان کے لئے ہی مختص ہوگا۔ سپریابی جے پی میں گئیں تو مراٹھا برادری سے ان کا ناتہ ٹوٹ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں کانگریس ہی وہ واحد ملک گیر پارٹی ہے، جس میں سپریا کا سیاسی مستقبل محفوظ رہ سکتا ہے۔ اس لئے اگر ٹی ایم سی کی برتری مان لی گئی تو یہ سپریا سولے کے لئے نقصان دہ اقدام ہوگا۔ شرد پوار اسی لئے دیدی سے فاصلہ بنائے رکھنا بہتر سمجھتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے رہتے ہیں کہ کانگریس کے بغیر اپوزیشن کا کوئی گٹھ جوڑ بی جے پی سے مقابلہ نہیں کر پائے گا۔وہ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ بی جے پی کمزور ہوتی جا رہی ہے اور کانگریس کی قبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
۲۰۱۴ ءکے الیکشن کے بعد ملک کی سیاسی فضا میں ایک جمود کا عالم پایا جا رہا تھا۔ اس امر کو جیسے قبول کر لیا گیا تھا کہ ابھی کافی عرصہ تک بی جے پی کے اقتدار بالخصوص نریندر مودی کی ذاتی شخصیت کو للکارنا بہت دشوار سیاسی عمل رہے گا۔۲۰۱۹ ء میں انہیں جو زبردست اکثریت ملی، اس نے ہندوستان ہی نہیں ساری دنیا میں یہ تاثر مرتب کر دیا کہ یہ صورت حال جلد بدلنے والی نہیں ہے۔ لیکن پھر کورونا کی یلغار اور اس سے نمٹنے میں مودی سرکار کی ناکامی اور خود نریندر مودی کی تالیاں بجوانے اور تھالیاں پٹوانے جیسی مضحکہ خیز حرکتوں نے صورت حال کو بدلنا شروع کر دیا۔ مغربی بنگال کے انتخابات نے اس عمل کو تیز تر کر دیا ہے۔اچانک محسوس کیا جانے لگا ہے کہ نہ بی جے پی ناقابل تسخیر رہی ہے نہ نریندر مودی ناقابل شکست رہ گئے ہیں۔پانچ ریاستوں میں اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات حکومت اور اپوزیشن کیلئے نہایت آزمائشی ثابت ہوں گے۔ خیال رہے کہ ان پانچ میں سے چار میں بی جے پی اور کانگریس بالکل آمنے سامنے ہیں۔ کسی ایک کا نقصان دوسرے کا فائدہ ہوگا۔ پانچوں میں سے کسی ایک ریاست میں بھی بی جے پی بہت محفوظ نظر نہیں آرہی ہے۔ اگر یہ صورت حال برقرار رہتی ہے تو سیاسی حلقوں میں یہ قیاس آرائی کی جا رہی ہے کہ کانگریس کی حالت پہلے سے خاصی بہتر ہو سکتی ہے۔ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ممتا بنرجی کے علاوہ اپوزیشن کے کم ازکم تین لیڈر دیدی کی طرح ہی مقبول اور طاقتور دکھائی دے رہےہیں۔ یہ تین یو پی کے اکھلیش یادو، بہار کے تیجسوی یادو اور ڈی ایم کے چیف اسٹالین ہیں۔ یہ تینوں یو پی اے میں ہیں اور انہیں راہل گاندھی سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ تینوں دیدی کے ساتھ بھی ہیں ، لیکن اپوزیشن کے کسی تیسرے محاذ کے حق میں بالکل نہیں ہیں۔ اگر پانچ ریاستوں میں بی جے پی کو زک اٹھانا پڑی تو یو پی اے میں نئی جان پڑ سکتی ہے۔ ان حالات میں مہاراشٹر میں ایم وی اے کی حکومت کو مزید استحکام دینے کیلئے عین ممکن ہے کہ ادھو ٹھاکرے شیو سینا کو لے کر یو پی اے میں شامل ہو جائیں۔n