Inquilab Logo Happiest Places to Work

تین دِن کا وزیر

Updated: November 20, 2020, 10:49 AM IST | Editorial

بہار میں وزیر تعلیم کے عہدہ پر فائز کئے گئے میوا لال چودھری، جن کا تعلق جنتا دل متحدہ (جے ڈی یو) یعنی نتیش کمار کی پارٹی سے ہے، استعفےٰ دینے پر مجبور کردیئے گئے جبکہ ابھی اُنہو ں نے اپنے عہدہ کا ٹھیک طریقے سے چارج بھی نہیں سنبھالا تھا۔

Mewalal Choudhry - Pic : PTI
میوالال چودھری ۔ تصویر : پی ٹی آئی

 بہار میں وزیر تعلیم کے عہدہ پر فائز کئے گئے میوا لال چودھری، جن کا تعلق جنتا دل متحدہ (جے ڈی یو) یعنی نتیش کمار کی پارٹی سے ہے، استعفےٰ دینے پر مجبور کردیئے گئے جبکہ ابھی اُنہو ں نے اپنے عہدہ کا ٹھیک طریقے سے چارج بھی نہیں سنبھالا تھا۔ حال ہی میں ختم ہوئے انتخابات کی مہم کے دوران جے ڈی یو اور اس کی حلیف بی جے پی نے ’’۱۵؍ سال کے جنگل راج‘‘ کو جی بھر کے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اشارہ آر جے ڈی کی سابقہ حکومت کی طرف تھا مگر، جیسا کہ کہا جاتا ہے، جب کوئی شخص کسی دوسرے پر اُنگلی اُٹھاتا ہے تو دیگر چار اُنگلیوں کا رُخ اس کی اپنی طرف ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اُنگلی اُٹھانے والے کو ایسا کرنے سے قبل اپنے دامن میں لازماً جھانک لینا چاہئے مگر نتیش کمار نے، جو چوتھی مرتبہ وزیر اعلیٰ بنے ہیں،الیکشن سے پہلے اور بعد میں متعدد ہزیمتوں سے گزرنے کے باوجود نجانے کس زعم میں بدعنوانی کے الزام کے باوجود میوالال چودھری کو کابینہ میں شامل کرلیا۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ نادانستگی میں ہونے والی غلطی تھی یا اس کا ارتکاب دانستہ کیا گیا مگر میوالال کو جس طرح کابینہ سے باہر کا راستہ دکھایا گیا اس سے اُن کی شبیہ سے کہیں زیادہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی شبیہ متاثر ہوئی ہے۔ غلطی اُنہی کی ہے۔ نہ وہ میوا لال چودھری کو کابینہ میں شامل کرتے نہ یہ دن دیکھنا پڑتا۔ 
 ویسے اُصولی بات تو یہ ہے کہ میوا لال کو کابینہ میں شامل کرنے سے پہلے انتخابی میدان میں اُتارنا ہی بنیادی غلطی تھا بالخصوص ایسے حالات میں جب آپ مخالف پارٹی کے کرپشن کو انتخابی موضوع بناکر اُس کے دور اقتدار کو جنگل راج قرار دے رہے ہوں۔ ہمارے ملک میں یہ وباء اب عام ہوگئی ہے اور شاید ہی کوئی پارٹی اس سے محفوظ ہو کہ اُمیدواروں کا کریمنل ریکارڈ دیکھنے کے بجائے اُن کی الیکشن جیتنے کی صلاحیت کو دیکھا جاتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بہت سے ایسے افراد منتخب ہوجاتے ہیں جن کے خلاف پولیس اسٹیشنوں میں معاملات درج ہوتے ہیں اور جنہیں پہلے مرحلے میں ٹکٹ ہی نہیں ملنا چاہئے۔ 
 واضح رہے کہ مونگیر کے تاراپور حلقۂ اسمبلی سے ۶۴؍ ہزار سے زائد ووٹوں سے جیتنے والے شری میوا لال چودھری پر،جنہوں نے اپنے انتخابی افیڈوٹ میں لکھا تھا کہ اُن کے خلاف کوئی کریمنل کیس نہیں ہے، معاون پروفیسروں اور جونیئر سائنسدانوں کی تقرریوں میں بے ضابطگی اور بدعنوانی کا ملزم بنایا گیا تھا۔ وہ اُس وقت بھاگلپور کی ’بہار ایگریکلچر یونیورسٹی‘ کے وائس چانسلر تھے۔ یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ فروری ۲۰۱۷ء میں جب اُن کے خلاف ایف آئی آر داخل کی گئی تھی تب اُنہیں پارٹی سے معطل کردیا گیا تھا ۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ساری باتیں نتیش کمار کی یادداشت سے محو ہوگئی ہوں گی؟ سوشاسن بابو کہلانے والے نتیش کمار کی نئی اننگز کا آغاز ہی ایسی خفت سے ہوا ہے جو سوشاسن کی قلعی کھولنے کیلئے کافی ہے۔  
 اُمیدواروں کے کریمنل ریکارڈ سے متعلق اسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس نے انتخابی نتائج ظاہر ہونے کے فوراً بعد کہہ دیا تھا کہ نئی اسمبلی میں سابقہ اسمبلی کے مقابلے میں مجرمانہ معاملات کے حامل اراکین کی تعداد زیادہ ہے۔ ۲۰۱۵ء میں یہ ۱۴۲؍ تھی، اب ۱۶۳؍ ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ ایسے ’داغدار‘ اُمیدواروں کو ٹکٹ دینے کا جرم تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے کیا جو نئی بات نہیں ہے۔ اب سے پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ یہ سلسلہ رُکنے کا نام ہی نہیں لیتا

bihar Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK