Inquilab Logo Happiest Places to Work

مَیں حجاب پہنتی ہوں اور اس میں خود کو زیادہ محفوظ محسوس کرتی ہوں: فٹ بال کھلاڑی خوشی بھاٹیہ

Updated: February 15, 2022, 7:03 AM IST | Iqbal Ansari | Mumbai

ممبرا کی یہ میونسپل طالبہ فٹ بال کی ٹریننگ میںحصہ لینے کیلئے روزانہ حجاب پہن کرآتی ہے، کہا :حجاب تنازع ملک کی گنگاجمنی تہذیب کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے

Khushi Bhatia (fourth from right) with other female students during a football practice on the field.
خوشی بھاٹیہ (دائیں سے چوتھی) دیگر طالبات کے ساتھ میدان پر فٹ بال کی پریکٹس کے دوران۔ (تصویر: انقلاب)

یہاں فٹ بال کھیلنے والی طالبات  میں شامل خوشی  بھاٹیہ کے ماتھے پر ٹیکہ  ضرور ہوتا ہے لیکن وہ فٹ بال کی ٹریننگ میں حصہ لینے کیلئے روزانہ حجاب پہن کر آتی ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ’’ مَیں حجاب میں خود کو زیادہ محفوظ محسوس کرتی ہوں  اسی لئے حجاب کی مخالفت کرنے والوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ وہ اپنے سیاسی مفاد کیلئے ملک کی گنگا جمنی تہذیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کریں۔‘‘
 خوشی بھاٹیہ ممبرا کے میونسپل  اسکول میں دسویں کی طالبہ  ہے اور’راہیں فاؤنڈیشن‘  کی جانب سے فٹ بال کی مفت تربیت لے رہی ہے ۔ وہ روزانہ حجاب پہن کر اسکول جاتی ہے اور فٹ بال کی پریکٹس بھی کرتی ہے۔ اس نےحجاب پر پابندی کی مخالفت کی اور اسے اختیاری قرار دینے کا مطالبہ کیا۔  خوشی بھاٹیہ  کے مطابق  ’’ حجاب میں مَیں خود کو زیادہ محفوظ محسوس کرتی ہوں اور کسی نے مجھے حجاب پہننے پر مجبور نہیں کیا بلکہ اپنے تحفظ کیلئے مَیں خود حجاب پہنتی ہوں۔حجاب پہن کر ہی مَیں فٹ بال کی پریکٹس بھی کرتی ہوں اور میچ بھی کھیل چکی ہوں۔‘‘اس نے یہ بھی بتایاکہ’’ ہماری ٹیم میںمسلم کھلاڑی بھی ہیں اورہم سب مل کر کھیلتے  ہیں نیز مختلف تقاریب میںساتھ ساتھ جاتے ہیں ۔ ہم کبھی بھی اس منافرت پھیلانے والوں کے  بہکاوے میںنہیں آئیں گے ۔جو فرقہ پرست ہم میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم انہیں کبھی بھی کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔‘‘
  اس سلسلے میں ’راہیں فاؤنڈیشن‘ کی صبا پروین  جو گزشتہ ۶؍ برس  سے ممبرا میں لڑکیوںکو فٹ بال کی تربیت دے رہی  ہیں، نے بتایا کہ ’’ ہماری ٹیم  میں مسلم اورغیرمسلم لڑکیاں شامل  ہیں۔ مسلم لڑکیاں حجاب  اور برقع پہن کر بھی فٹ بال کھیلتی ہیں اور گھر کے لباس میں بھی پریکٹس کرتی ہیں۔ ہمیں کبھی بھی مذہب کا فرق محسوس نہیں ہوا لیکن چند سیاستداں اپنے مفاد کیلئے حجاب کا مسئلہ اٹھا کر فرقہ ورانہ کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ انہیں ان کے ناپاک مقاصد میں کامیابی نہیں ملے گی اور جو بچیاں حجاب پہنتی تھیں، وہ  اب بھی پہنیں گی۔‘‘
 پیر کو ’راہیں فاؤنڈیشن‘ کی کھلاڑی تنور کمپلیکس کے قریب واقع ملک اسپورٹس (راحیل عثمانی ) کے ٹرف پر پریکٹس کرنے آئی تھی۔ غریب طالبہ کے مثالی جذبے کو دیکھتے ہوئے راحیل نے ایک گھنٹے پریکٹس کیلئے کوئی فیس نہیں لی۔ یہاں پریکٹس کیلئے آنےو الی بچیوں میں تھانے میونسپل اسکول، کالسیکر کالج کی طالبات تھیں جن میں اکثر لڑکیاں برقع میں تھیں۔
 صبا پروین   نے مزید بتایاکہ ’’پہلے ممبرا میں لڑکیوں کو فٹ بال جیسےکھیل کھیلنے کی اجازت سرپرستوںکی جانب  نہیں دی جاتی تھی لیکن اب لوگوںکی سوچ بدل رہی ہے اور ممبرا بدل رہا ہے  اس لئے اب سرپرست راضی ہوئے ہیں لیکن غربت کے سبب کئی لڑکیاں اچھی کھلاڑی بننے کی اپنی خواہش پوری نہیں کر پارہی تھیں۔ ان کی اسی خواہش کو پورا کرنے کیلئے ہم نے انہیں مفت تربیت دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ ابھی جو حجاب پر تنازع جاری ہے، مجھے ایسا لگتا ہےکہ یہ مسلم بچیوں کو نشانہ بنانے کیلئے کیا جارہا ہے۔ پہلے بلی بائی پھر دھرم سنسد اور اب طالبات کے حجاب پہننے پر اعتراض کیا جارہا ہے۔  طلبہ جن کے ہاتھوں میں کتاب اور قلم ہونا چاہئے ، ان کے ذہنوںمیں زہر گھولنے کا کام کیاجارہا ہے۔‘‘انہوںنے یہ بھی کہا کہ’’ ہمارے گروپ میں بھی مسلم اور غیر مسلم کھلاڑی ہیں، کھیل کے دوران انہوںنے کبھی بھی مذہب کافرق محسوس نہیں کیا۔ ملک کے دستو ر نے جب ہمیں یہ حق دیاہےکہ ہم کیا پہننے اور کیا کھائیں تو محض سیاسی مفاد کیلئے اسے ہم سے چھیننے کی کوشش نہ کی جائے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK