EPAPER
Updated: March 18, 2021, 11:28 AM IST | Agency | Washington
بائیڈن انتظامیہ کے اہم ترین وزیروں نے دونوں ممالک کے اپنے ہم منصبوں سے چین کے بڑھتے عزائم اور شمالی کوریا سے خطے کو لاحق خطرات سے متعلق گفتگو کی
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اور وزیر خارجہ انتھونی بلنکن منگل کو جاپان کا دورہ مکمل کرنے کے بعد جنوبی کوریا روانہ ہو گئے۔ اُدھر شمالی کوریا نے امریکی انتظامیہ کو دھمکی دی ہے کہ وہ مشترکہ فوجی مشقوں سے باز رہیں۔جب امریکی وزرائے دفاع اور خارجہ ٹوکیو میں اپنے ہم منصبوں سے مذاکرات کر رہے تھے، اس وقت شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ اُن کی بہن، کم یو جونگ نے امریکہ اور جنوبی کوریا کی مشترکہ فوجی مشقوں پر تنقید کرتے ہوئے امریکہ کو متنبہ کیا کہ وہ خطے میں ’فساد‘ پھیلانے سے باز رہے۔کم یو جونگ کے بیان میں، امریکہ کے `نئے انتظامیہ کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ آئندہ چار برسوں کے دوران `چین کی نیند سوئیں تو پھر اُن کیلئے یہ اچھا ہو گا کہ وہ `وار گیم یا جنگی حربوں سے پرہیز کریں۔بیان میں جنوبی کوریا کے حکام سے کہا گیا ہے کہ جنگی مشقیں شروع کرنے پر انہیں `نتائج کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ یہ مشقیں اس مہینے کے آغاز پر شروع ہوئی تھیں۔شمالی کوریا کی جانب سے بائیڈن انتظامیہ کیلئےیہ پہلی دھمکی ہے۔ اس سے پہلے، شمالی کوریا نے ایسی ہی شعلہ بیانی کا مظاہرہ ٹرمپ کے ابتدائی ایام میں کیا تھا۔
کہا جا رہا ہے کہ دونوں امریکی وزراء کے دورہ ٔجنوبی کوریا کے درمیان یہ دھمکی بھی زیر بحث آئے گی۔جاپان کے دورے پر شمالی کوریا کی جانب سے خطے کو لاحق مسلسل خطرے پر بات ہوئی لیکن وہاں مرکزی موضوع چین کے بڑھتے ہوئے جارحانہ عزائم تھے۔ ملاقات کے دوران، جاپانی حکام نے، تائیوان اور متنازع سین کاکُو جزائر کے خلاف چین کے بڑھتے ہوئے خطرے کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا۔
جاپان میں ا نتھونی بلنکن اور لائیڈ آسٹن کی اپنے ہم منصبوں، جاپانی وزیر خارجہ توشی متسو موٹیگی اور جاپانی وزیر دفاع نو بو او کیشی سے ہونے والی ملاقات کو ’ٹو پلس ٹو‘ملاقات کا نام دیا گیا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے دونوں اہم ترین وزرا کا یہ پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔جاپانی وزیر خارجہ سے علاحدہ ملاقات سے قبل، بلنکن کا کہنا تھا کہ واشنگٹن اور ٹوکیو `جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، لیکن ان اقدار کو خطے میں چین اور برما سے خطرہ ہے۔ برما میانمار کا پرانا نام ہے۔جاپانی وزیر خارجہ موٹیگی کا ملاقات کے بعد کہنا تھا کہ وہ اور ان کے امریکی ہم منصب، چین کی جانب سے جنوبی چین کے سمندر اور اس کے مشرق میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے کی کوششوں کے خلاف ہیں۔ چین نے ان پانیوں میں جارحانہ طور پر اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ کیا ہے اور زیادہ بحری علاقے پر اپنے حقوق کا دعویدار ہے۔
پیر کے روز اخبار دی واشنگٹن پوسٹ میں چھپنے والے ایک مشترکہ مضمون میں، بلنکن اور آسٹن نے چین کے بارے میں کہا کہ وہ ایک ایسا ملک ہے جو خطے میں عالمی نظم و نسق کو چیلنج کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ خطے میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر، تبت اورژنجیانگ میں انسانی حقوق کی پامالیوں، ہانگ کانگ کی خود اختیاری کو ختم کرنے، تائیوان میں جمہوریت کو دبانے اور جنوبی چین کے سمندر میں بین الاقوامی قوانین کی پامالی پر چین کو جوابدہ ٹھہرائے گا۔بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کی جانب سے جاپان اور جنوبی کوریا کو اپنے پہلے غیر ملکی دورے کیلئے منتخب کرنا، امریکی صدر جو بائیڈن کی ایشیا میں سلامتی کے حوالے سے تشویش کا آئینہ دار ہے۔