Inquilab Logo Happiest Places to Work

حجاب کی مخالفت کی آڑ میںبی جے پی اورآر ایس ایس کی سازش کوسمجھیں

Updated: February 12, 2022, 8:30 AM IST | saeed Ahmed | Mumbai

’ہم بھارتیہ‘اورطلبہ کی تنظیموں کی جانب سے حجاب کی حمایت میںمیرا روڈ اور ورلی میںزبردست احتجاج میں برادران وطن کی خواتین نےبھی حصہ لیا اورفرقہ پرستوں کو آڑے ہاتھوں لیا

In support of the hijab, a massive protest was staged on Friday in Myra Road and Worli in which women of the Brotherhood also participated and chanted slogans against the sectarian forces.
حجاب کی حمایت میں جمعہ کو میرا روڈ اور ورلی میں زبردست احتجاج کیا گیا جس میںبرادران وطن کی خواتین نے بھی شرکت کرتے ہوئے فرقہ پرست طاقتوں کیخلاف نعرے بازی کی۔

حجاب کی آڑ میںبی جے پی اورآر ایس ایس کی سازش اوران کے مقاصد کوسمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کے موضوعات آخرکیوں چھیڑے جاتے ہیں۔ ’ہم بھارتیہ‘ کی جانب سے حجاب کی حمایت میںمیرا روڈ میں اور طلبہ کی تنظیموں کی جانب سے ورلی میں جمعہ کو کئے گئے زبردست احتجاج میں برادران وطن کی خواتین نےبھی حصہ لیا اورفرقہ پرستوں کو آڑے ہاتھو ںلیا ۔
 اس احتجاج میں ملّی ، سماجی اوررفاہی تنظیموں کے ذمہ داران کے علاوہ سیاسی جماعتوںکے عہدیداران اور کارکنان  نےبھی شرکت کی اورآئندہ بھی اپنی حمایت جار ی رکھنے کی یقین دہانی کروائی ۔ حجاب کے تنازع کی برادران وطن کی بڑی تعداد مخالفت کرتے ہوئے شرپسندوں کی مسلسل مذمت کررہی ہے ۔ان کاکہنا ہے کہ جب ملک کےآئین میں اس کی آزادی دی گئی ہے کہ ہر ہندوستانی اپنی پسند کے مطابق زندگی گزار سکتا ہے تو آخر بھگوا عناصر آئین میں دیئے گئے حقوق کوچھیننے کی کوشش کیوں کررہے ہیں۔
حجاب سے نفرت کرنےوالےگھونگٹ پر کیاکہیںگے 
 احتجاج میںشامل برادران وطن کی خواتین نے اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے بھگوا عناصر کو آڑے ہاتھوں لیا۔ رنجنا گوتم بھگت نے کہا کہ ’’ حجاب اوربرقع پرپابندی لگانے کی بات کرنے والے آر ایس،بی جے پی اوربجرنگ دل والو ںکے خلاف ہم سب کوایک ہونے کی ضرورت ہے۔ انہیںکس نے یہ اختیار دیا کہ وہ کسی طالبہ سے حجاب یا برقع کا حق چھین لیں۔ ‘‘ انہوںنےیہ بھی کہا کہ ’’ اصل میں یہ طاقتیں اس طرح کے موضوع کو چھیڑکرآئین میں دیئے گئے حقوق کو چھین لینا چاہتی ہیں اوران کا اصل منشاء آئین کو تبدیل کرنا ہے۔لیکن ہم سب ایک ہیںاورمل جل کرایسی طاقتوں کے منصوبوں کوناکام بنادیںگے۔‘‘ امرتا کامبلے نے اپنی بیٹی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’’ وہ گریجویٹ ہے اس کے باوجود جب گھر سےنکلتی ہے تومیںاسے تلقین کرتی ہوں  کہ ایسا کپڑاپہن کرجانا جس سے بدن ڈھکا رہے تو آخر مسکان بھی کسی کی بیٹی ہے ،وہ اپنی پسند اورپردے کا خیال کرتے ہوئے حجاب استعمال کررہی ہے تواس سے بھگوائیوں کومرچی کیوں لگ رہی ہے؟ ہمیں حجاب کی مخالفت کی آڑ میںبی جے پی اورآر ایس ایس کی سازش اوراس کے منصوبوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔‘‘ امرتا نے مثال دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’’آج بھی ملک کے مختلف حصوں میںالگ الگ ذات برادری کی عورتیں اپنے بڑوں کےسامنے گھونگٹ نکال کرآتی ہیں، تو ان سے کیوںنہیںکہاجاتا کہ دنیا بدل چکی ہے،ہم نے بہت ترقی کرلی ہے ،تم اس طرح کی رسم ورواج میںآج بھی الجھی ہوئی ہو۔‘‘
زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت نہیں
 نیتا سورٹے نے کہاکہ ’’ ہمیںحجاب کے خلاف بکواس کرنے والوں کوزیادہ اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان لوگوں کا کام ہی سماج کوبانٹنا اورآپس میں تفریق پیداکرنا ہے ۔ آرایس ایس،بی جےپی اوربجرنگ دل والوں کایہی طریقہ ہے اورایسے غیرضروری ایشو کو انہوں نے مشن بنارکھا ہے۔انہیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ہر ہندوستانی کو بابا صاحب کے سمودھان نے حق دیا ہے ،اسے کوئی چھین نہیںسکتا۔‘‘
۵؍فیصدفرقہ پرستوںنے مہم چھیڑرکھی ہے
 مظاہرے کےدوران ڈاکٹرعظیم الدین ، مولانا عبداللہ غازی پوری ، اقبال مہاڈک ، عبید فروٹ والا، اخترادریسی ، مولانا انظارقاسمی ، مولانا حسن امام ،سعد سید، سمیہ (طالبہ ) اورجِیا طارق احمدوغیرہ نے اظہار خیال کیا۔  اس موقع پربطور خاص یہ باتیں کہی گئیں کہ محض ۵؍فیصد فرقہ پرست عناصر آئے دن کوئی نہ کوئی تماشہ کرتے رہتے ہیں ،دیگربرادران مل جل کرنہ صرف رہتے ہیںبلکہ وہ بھی بھگوا عناصر کی اس طرح کی حرکتوں کوسخت ناپسندیدگی سے دیکھتے ہیں۔ شرپسندوں نے مہم چھیڑ رکھی ہے لیکن ہم سب اتحاد واتفاق سے ان کے منصوبوں کوناکام بنادیں گے۔
 فرقہ پرستوںکے سامنے ڈٹ جانے والی مسکان خان اورکیمپس میں اسے بچانےاوراس کی حوصلہ افزائی کرنےوالے غیرمسلم اساتذہ کی بھی احتجاج کے دوران ستائش کی گئی ۔ 
کیا یہ ٹھیکے دار ہیں
 ورلی میںطلبہ کی تنظیموں ایس ایف آئی ،ڈی وائی ایف آئی اوراے آئی سی کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور اس میںخواتین نےبڑی تعداد میںحصہ لیا۔ یہاںموجود پروین ماندلکرنےکہا کہ’’ حجاب کی مخالفت کرنےوالوں کو مسکان خان نےجس طرح سے جواب دیا ہے اس سے وہ تلملا اٹھےہیں  ۔ ہم سب یہ یقین دلاتے ہیںکہ ہم اپنی اس بہن اوربیٹی کےساتھ ہیںاورفرقہ پرستو ں کوکسی قیمت پر نفرت پھیلانے اورسماج کوبانٹنے کی ان کی کوشش کو کامیاب نہیںہونے دیںگے۔‘‘انہوںنےیہ بھی کہا کہ ’’کیا یہ ٹھیکے دار ہیںکہ ان کے اشارے پرلوگ چلیں گے۔‘‘
  اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا،ویمنز اسوسی ایشن، ڈیموکریٹک یوتھ فیڈریشن آف انڈیا، اقلیتی حقوق کی جدوجہد کمیٹی اور دیگر نے اس مشترکہ مظاہرہ میں خواتین کے حجاب پہننے کے حق کو تسلیم کیا اور کرناٹک حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ طلبہ کے ساتھ ان کےلباس کی بنیاد پر بھید بھائو بند کرے۔  ایس ایف آئی کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ حجاب پہننے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل ۲۵؍ کے ذریعہ تمام مذاہب کے لئے دی گئی آزادی کے خلاف ہے جبکہ اسکول  انتظامیہ کا حجاب پہننے والی طالبات کو اسکول یا کالج کے احاطے میں داخل کرنے سے انکار سراسر غلط ہے۔   ڈریس کوڈ میں کوئی بھی تبدیلی طلبہ سے مشورہ کے بغیر نہیں ہونی چاہئے اور نہ طلبہ کو مذہبی عمل اور تعلیم میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور کیا جانا چاہئے ۔یہاں اس بات پر زور دینا ضروری ہے کہ مسلم خواتین کو ہراساں کرنے کے اس قسم کے واقعات تعلیمی اداروں میں ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب مسلم خواتین کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی کم ہے۔  اس دوران کرناٹک کے وزیر تعلیم بی سی ناگیش کے رویہ کی بھی مخالفت کی گئی جو کھل کر اس معاملے میں سیاست کررہے ہیں۔ 

mira road Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK