EPAPER
Updated: August 18, 2021, 8:34 AM IST | New Delhi
سپریم کورٹ نے بالآخر نوٹس جاری کردیا، قومی سلامتی کا عذر پیش کرنے پر واضح کیا کہ معاملہ چند عام اور ممتا زشخصیات سے بھی جڑا ہے
پیگاسس کے استعمال پرہاں یا نہ میں جواب دینے سے مرکزی حکومت نے منگل کو بھی صاف انکار کر دیا جس کے بعد سپریم کورٹ نے یہ کہتے ہوئے اسے نوٹس جاری کر دیا کہ ’’یہاں معاملہ مختلف ہے، کچھ شہری جن میں ممتاز شخصیات شامل ہیں، اپنے موبائل فون کے ہیک ہونے کی شکایت کررہے ہیں۔‘‘ مودی حکومت کی آناکانی پر چیف جسٹس این وی رامنا کی بنچ نے مزید کہا ہے کہ ’’گوکہ قانون عام شہریوں کی جاسوسی کا بھی اختیار دیتا ہے مگر اس کیلئے مناسب اتھاریٹی کی اجازت ضروری ہے۔اس میں کوئی برائی نہیں ہے مگر وہ اتھاریٹی اگر ہمارے سامنے حلف نامہ داخل کرے تواس میں کیا مسئلہ ہے؟‘‘
اس سے قبل مرکزی حکومت کی پیروی کرتے ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عرضی گزاروں کے اس اصرار پر کہ حکومت یہ بتائے کہ اس نے جاسوسی کیلئے پیگاسس کا استعمال کیا ہے یا نہیں، برہمی کا اظہار کیا اورکہاکہ اس سے کسی کا کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے کہ آئی ٹی رولس ۲۰۰۹ء کے تحت نیشنل سیکوریٹی اور دہشت گردی کے تعلق سے کون سا سافٹ ویئر استعمال ہورہاہے یا کون سا نہیں۔ ان کے مطابق ’’وہ (عرضی گزار) چاہتے ہیں کہ حکومت ہند بتائے کہ کون سا سافٹ ویئر استعمال نہیں ہوا۔کوئی بھی ملک کبھی یہ نہیں بتائے گا کہ اس نے کیاسافٹ ویئر استعمال کیا اور کیا نہیں ورنہ جن کی نگرانی کی جارہی ہے وہ پیشگی احتیاطی اقدامات کرلیںگے۔‘‘یاد رہے کہ پیر کی شنوائی میںبھی مودی حکومت نے یہ بتانے سے انکار کردیا تھا کہ اس نے پیگاسس سافٹ ویئر کا استعمال کیا ہے یا نہیں ۔اس کے برخلاف اس نےمحض ۲؍ صفحات کے ایک مختصر سے حلف نامہ کے ذریعہ ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز پیش کی تھی۔اس پر چیف جسٹس کی بنچ نے مرکز کو ایک دن کا وقت دیتے ہوئے کہاتھا کہ اگر ان کی رائے بدل جائے اور وہ اضافی حلف نامہ داخل کرنا چاہیں تو منگل کو داخل کردیں۔
منگل کی شنوائی میں سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے دوٹوک لہجے میں کہا کہ حکومت کی جانب سے داخل کیا گیا مختصر سا حلف نامہ حکومت کا ’سوچا سمجھا جواب ‘ہے۔انہوں نے کہا کہ ’’میں نے حلف نامہ داخل کردیا ہے جو کافی ہے۔‘‘اس پر بنچ میں شامل جسٹس انیرودھ بوس نے پوچھا کہ ’’کیا ہم یہ سمجھیں کہ مرکزی حکومت اس سلسلےمیں اور کچھ نہیں کہنا چاہتی۔‘‘