EPAPER
Updated: June 04, 2021, 8:28 AM IST | New Delhi
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ۱۹۶۲ء کا عدالتی حکم ہر صحافی کو اس طرح کے الزامات سے محفوظ رکھتا ہے ، سخت الفاظ میں اختلاف رائے ملک سے غداری قطعی نہیں ہے
سپریم کورٹ نے سینئر صحافی ونود دوا کے خلاف جاری ملک سے غداری کے مقدمہ کو منسوخ کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ۱۹۶۲ء کا عدالت عظمیٰ کا حکم ہر صحافی کو اس طرح کے الزامات سے محفوظ رکھتا ہے۔ ونود دوا کے دہلی فسادات پر مبنی ایک شو کے بعد ہماچل بی جے پی کے لیڈر نے ہماچل پردیش میں ان کے خلاف ملک سے غداری کا مقدمہ درج کروادیا تھا ۔ایف آئی آر میں ونود دوا پر فرضی خبریں پھیلانے، لوگوں کو اکسانے، ہتک آمیز مواد نشر کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ونود دوا نے اس ایف آئی آر کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، جس پر جمعرات کو فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے مقدمہ کی کارروائی اور ایف آئی آر کو منسوخ کر دیا ۔
جسٹس یو یو للت اور جسٹس ونیت سرن کی بنچ نے سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہر صحافی ایسے الزامات سے محفوظ ہے۔ ہر صحافی کو ملک سے غداری کے معاملہ میں کیدار ناتھ کیس کے فیصلے کے تحت تحفظ حاصل کرنے کا حق ہے۔ حکومت پر تنقید اظہار رائے کی آزادی کا جز ہے جس سے سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہئے۔ واضح رہے کہ ۱۹۶۲ء کے سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی طرف سے کئے گئے اقدامات پر سخت الفاظ میں اختلاف رائے ملک سے غداری نہیں ہے۔یہ الفاظ چاہے جتنے سخت ہوں غداری کے ذیل میں نہیں آتے ۔ حکومت کے فیصلوں یا معاملات سے اختلاف کرنا کسی بھی شہری کا بنیادی حق ہے اور اگر وہ صحافی ہے تو اسے اس معاملے میں تحفظ کا حق حاصل ہے۔واضح رہے کہ ونود دوا مودی حکومت کے سخت ترین ناقدین میںسے ایک ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال ۲۰؍ جولائی کو عدالت نے ونود دوا کو کسی بھی مجرمانہ کارروائی کے خلاف تحفظ میں تا حکم ثانی توسیع کر دی تھی۔ اس سے قبل عدالت نے کہا تھا کہ ونود دوا کو اس معاملہ کے تعلق سے ہماچل پردیش پولیس کی جانب سے پوچھے گئے کسی ضمنی سوال کا جواب دینے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
واضح رہے کہ ہماچل بی جے پی کے لیڈر شیام نے پچھلے سال مئی کے مہینے میں شملہ ضلع کے کمارسین پولیس اسٹیشن میں ملک سے غداری، عوامی طور پر فساد پیدا کرنے، ہتک آمیز مواد شائع کرنے کے الزامات پر تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کرائی تھی جس کے بعد ونود دوا سے تحقیقات میں شامل ہونے کو کہا گیا تھا۔ شیام نے الزام لگایا تھا کہ دوا نے اپنے یوٹیوب پروگرام میں وزیر اعظم کے خلاف سنگین الزامات عائد کئے ہیں۔ تاہم، عدالت نے دوا کی اس درخواست کو مسترد کر دیا جس میں انہوں نے درخواست کی تھی کہ ۱۰؍سال کے تجربے والے کسی بھی صحافی کے خلاف ایف آئی آر اس وقت تک درج نہیں کی جانی چاہیے جب تک کہ کسی ہائی کورٹ کے جج کی سربراہی میں تشکیل شدہ پینل اس کو منظوری فراہم نہیں کر دے۔عدالت نے کہا کہ یہ مقننہ کے دائرہ اختیا میںتجاوزات کے مترادف ہے۔ اس لئے وہ ایسا کوئی حکم جاری نہیں کرسکتے ۔