Inquilab Logo Happiest Places to Work

سوشل میڈیاپر پابندیوں کی تیاری ، ڈرافٹ جاری

Updated: February 26, 2021, 8:29 AM IST | Inquilab News Network | New Delhi

مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے دعویٰ کیا کہ اس ڈرافٹ کے ذریعےسوشل میڈیا کیلئے باقاعدہ نظم کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیوں کو ملک میں کاروبارکرنے کی کھلی اجازت کا دعویٰ لیکن دہرامعیار ختم کرنے کی ہدایت،۳؍ ماہ میں قانون نافذکرنےکا اعلان ، اپوزیشن نے نشانہ بنایا، کہا کہ سرکار صرف اپنی ساکھ بچانے کی کوشش کررہی ہے

Javdekar and Prsad - Pic : PTI
مرکزی وزیر روی شنکر پرساد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے۔ ساتھ میں پرکاش جائوڈیکر ۔ (پی ٹی آئی

حکومت ہند سوشل میڈیا کو بھی لگام دینے کی کوششیں کررہی ہے جس کے تحت اس نے قانون کا ڈرافٹ جاری کیا ہے جس پر اگلے کچھ ہفتوں تک گفتگو ہو نے کا امکان ہے۔سوشل میڈیا کمپنیوں اور اداروں کو لگام دینے کے لئےحکومت ہند نے پوری تیاری کر لی ہے۔ اگلے تین مہینے کے اندر اندر اس سے متعلق بنایا گیا قانون نافذ کر دیا جائے گا۔خاص بات یہ ہے کہ اس کی زد میں سیاسی جماعتیں بھی آئیں گی ۔ مرکزی وزیر روی شنکر پرساد اور پرکاش جائوڈیکر نے پریس کانفرنس میں یہ معلومات دیں۔  انہوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کو ایک گریونس میکانزم تیار کرناہوگا اور۱۵؍ دنوں میں مشکلات کو ایڈریس کرنا ہوگا۔ مستقل بتانا ہوگا کہ کتنی شکایت آئیں اور ان پر کیا کارروائی کی گئی ؟  اگر کسی نے کوئی قابل اعتراض پوسٹ کیا ہے تو اس کا سب سے پہلا  میسیج کہاں سے آیا یہ بتانا ہو گا۔  
مرکزی حکومت کے ارادے 
 روی شنکر پرساد  نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے حکومت کے ارادے بالکل واضح کردئیے ۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ اگر کوئی چیز بیرون ملک سے فارورڈ ہوئی ہے تو ہندوستان میں اسے کس نے آگے بڑھایا۔انھوں نےمتنبہ کیا کہ اگر سوشل میڈیا کمپنیاں ان اصولوں کو تسلیم نہیں کریں گی توآئی ٹی ایکٹ میں جو بھی قانون ہے اس کے مطابق  ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔   ساتھ ہی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو افسروں کی تعیناتی بھی کرنی ہوگی۔ کسی بھی قابل اعتراض چیز کو ۲۴؍ گھنٹے کے اندر اندر ہٹانا  ہوگا۔ پلیٹ فارمس کو ہندوستان میں اپنے نوڈل آفیسر اور ریزیڈنٹ گریونس آفیسرس کی تعیناتی کرنی ہوگی ۔ اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا کمپنیوں کو ہر مہینے کتنی شکایتوں پر ایکشن ہوا ہے ، اس کی اطلاع بھی حکومت کو فراہم کرانی ہوگی ۔
اہم مسائل پر احتیاط کی تلقین 
   جاری کئے گئے ڈرافٹ میں ہندوستان کی سالمیت ، خود مختاری ، غیر ملکی تعلقات  اور عصمت دری  جیسے اہم مسئلوں کو  شامل کیا  گیا ہے اور ان معاملات پر کمپنیوں کو بھی حد درجہ احتیاط برتنے کی تلقین کی گئی ہے ۔یہ گائیڈلائن سبھی پر نافذ کی جائیں گی خواہ وہ کوئی سیاسی پارٹی ہو یا پارٹی سے رشتہ رکھنے والا کوئی خاص شخص ۔ 
ڈجیٹل میڈیا کو بھی پابند بنایا گیا 
 اس کے ساتھ ہی  ڈرافٹ میں  او ٹی ٹی پلیٹ فارم اور ڈیجیٹل میڈیا کو اپنے کام کی اطلاع دینے کا پابند کیا گیا ہے  ۔ انہیں یہ بتانا ہو گا کہ  وہ کیسے اپنا کانٹینٹ تیار کرتے ہیں ،اس کے بعد سبھی کو سیلف ریگولیشن نافذ کرنا ہوگا ۔ اس کے  لئے ایک باڈی بنائی جائے گی جس کی ذمہ داری سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج یا  کسی دیگر  اہم شخصیت کو  دی جائے گی  ۔  الیکٹرانک میڈیا کی طرح ڈجیٹل میڈیا کو بھی غلطی کرنے پر معافی نامہ جاری کرنا ہوگا ۔
ہندوستان کی شبیہ کا دھیان 
 مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے اس کے ساتھ ہی ہندوستان کی تجارتی مواقعوں میں بہتر ہورہی  شبیہ کا بھی دھیان رکھنے کی کوشش کی اور کہا کہ ہندوستان میں کاروبار کرنے کے لئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمس کا خیرمقدم ہے، حکومت تنقیدوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہے لیکن سوشل میڈیا کے غلط استعمال پر شکایت کیلئے بھی ایک میکانزم ہونا چاہئے اور ہم اسی کی کوشش کررہے ہیں۔ 
اصل مسئلہ کیا ہے ؟
 واضح رہے کہ ہندوستان میں  وہاٹس ایپ کے ۵۳؍ کروڑ اور فیس بک کے ۴۰؍ کروڑ سے زائد صارفین ہیں۔ ان دونوں پلیٹ فارمس پر گزشتہ کچھ دنوں سے حکومت کے حامیوں اور حکومت مخالفین عناصر میں ایک طرح سے جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ کسانوں کے آندولن کے سلسلے میں بھی سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا میں اس آندولن کی پل پل کی خبر یںپہنچ رہی  ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ حکومت اسی سے خوفزدہ ہے اور اس نےڈرافٹ جاری کرنے کے بہانے سے سوشل میڈیا پر کچھ پابندیاں عائد کرنے کا راستہ نکالنے کی کوشش کی ہے۔  
اپوزیشن نے آڑے ہاتھوں لیا 
 بی ایس پی کے رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی نے حکومت کی ان کوششوں پر کہا کہ جس سوشل میڈیا کا استعمال کرکے مودی اور بی جے پی یہاں تک پہنچے ہیں ، اب جب اس کی آنچ ان تک جا رہی ہے تو  وہ گھبرا گئے ہیں ۔ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کی اکثریت کو کنٹرول کر لیا گیا ہے لیکن سوشل میڈیا عوام کی آواز بلند کر رہا تھا چنانچہ اب اس  پر گرفت کی جا رہی ہے ۔ سی پی آئی کے قومی سیکریٹری اتل کمار انجان نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ حکومت گھبرا گئی ہے کیونکہ اب اس کی حقیقت اور ناکامی سوشل میڈیا کے ذریعہ عام ہو رہی ہے ۔ ورنہ ۲۰۱۴ء سے ۲۰۱۷ءتک کیا ان کو یہ نظر نہیں آیا تھا جب بی جے پی اور آ رایس ایس کے ۸۰؍ ہزار لوگ سرگرم تھے اور ۳۵؍ہزار لوگوں کو تنخواہ پر رکھا گیا تھا ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK