Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’ اگر ہمیں اپنے آبی وسائل کو استعمال کرنے کی اجازت دی جائے تو ہمیں کسی بجٹ کی ضرورت نہیں پڑے گی‘‘

Updated: August 04, 2021, 8:36 AM IST | srinagar

جموں کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ ان دریاؤں پرہم خود بجلی پروجیکٹ تعمیر کریں گے اور بجلی فروخت کرکے ریاست کو چلائیں گے، دفعہ ۳۷۰؍ کے خاتمے کو مختلف مسائل کی جڑ قرار دیا

Former Chief Minister of Jammu and Kashmir Omar Abdullah.Picture:PTI
جموں کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ تصویرپی ٹی آئی

 نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ  نے ریاست کے قدرتی وسائل پرگفتگو کرتے ہوئے کہاکہ مرکزی حکومت  اگر ہمیں دریاؤں کا  استعمال خود کرنے دے گی تو ہمیںکسی بجٹ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم خود ان پر بجلی پروجیکٹ تعمیر کریں گے اور بجلی فروخت کر کے  اپنی ریاست کو چلائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست  میں جو بھی  مسائل پیدا ہوئے ہیں، وہ دفعہ۳۷۰؍ سے نہیں بلکہ بندوق سے پیدا ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس دفعہ ۳۷۰؍ ملک اور جموں کشمیر کے درمیان ایک آئینی رابطہ تھا۔عمر عبداللہ نے ان باتوں کا اظہار ایک نیوز چینل کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو کے دوران کیا ہے۔ان کی حاضر جوابی اور اعداد و شمار کی بنیاد پر جوابات دینے کی وجہ سے اس انٹرویو کو سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کیا جا رہا ہے۔
 نیشنل کانفرنس لیڈر نے جموں کشمیر کا بجٹ اتر پردیش جیسی بڑی ریاست سے زیادہ ہونے کے بارے میں پوچھے جانے پر کہا کہ’’ `بجٹ کو ایک طرف چھوڑدیں، ہمیں ہمارے دریاؤں کا خود استعمال کرنے دیں، ہم خود ان پر بجلی پروجیکٹ تعمیر کریں گے اور بجلی کو بیچ کر جموں کشمیر کو چلائیں گے، پھر ہمیں آپ کا بجٹ نہیں چاہئے۔‘‘ان کا کہنا تھا کہ اگر جموں کشمیر کا بجٹ زیادہ ہے تو جموں کشمیر کئی شعبوں میں ملک کی بعض ریاستوں سے آگے بھی ہے۔عمر عبداللہ نے دفعہ۳۷۰؍ اور دفعہ۳۵؍ کی تنسیخ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جموں کشمیر میں جو مسائل پیدا ہوئے ہیں وہ دفعہ۳۷۰؍ کی وجہ سے نہیں بلکہ بندوق کی وجہ سے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دفعہ ہٹانے کے بعد دعویٰ کیا گیا تھا کہ اب جموں کشمیر میں ترقی ہوگی، کشمیری مہاجر پنڈت واپس وطن لوٹیں گے لیکن دو برس بیت گئے کہیں بھی کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
  مودی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ جموں کشمیر میں جن پروجیکٹوں کا افتتاح کیا جا رہے ہیں وہ سب سابق حکومتوں کے دور میں منظور ہوئے تھے۔جموںکشمیر کا  ہندوستان کے ساتھ الحاق پر بات کرتے ہوئے  انہوں نے کہا کہ ’’ہم ہندوستان کی کشتی میں سوار ہوئے تھے لیکن کشتی میں سوار ہوتے وقت جو ہم سے وعدے کئے گئے تھے، ملک ان سے مکر گیا۔ ہم سے کہا گیا تھا کہ جموں کشمیر جب تک ملک کا حصہ رہے گا تب تک آئین کے تحت اس کی خصوصی پوزیشن رہے گی ،ہمیں یہ نہیں کہا گیا تھا کہ یہ وعدے۷۰؍  یا۸۰؍ برس بیت جانے کے بعد ختم ہوں گے۔‘‘انہوں نے کہا کہ الحاق مشروط تھا، اس کو واپس نہیں لیا جا سکتا ہے لیکن جن حالات میں یہ الحاق ہوا ان  حالات کو بھی منسوخ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
 جموں کشمیر پولیس کے حالیہ حکم نامے کہ سنگ باری و دیگر امن و آشتی کے معاملات میں ماخوذ لوگوں کو پاسپورٹ اور نوکریاں نہیں ملیں گی، کے بارے میں عمر عبداللہ نے کہا کہ ’’مجھے۲۳۴؍ دنوں تک نظر بند رکھا گیا اور میری نظر بندی کو جائز قرار دینے کیلئے جو پولیس نے کیس تیار کیا اس میں کہا گیا کہ میں لوگوں کو ووٹ ڈالنے پر تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں، کل یہی کسی نوجوان کے ساتھ ہوگا جس کی وجہ سے وہ نوکری سےمحروم ہو سکتا ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ جب  اس طرح کے حکم ناموں سے کام چلانا ہے تو عدالت کی کیا ضرورت ہے۔
  سابق وزیر اعلیٰ نے پاکستان کی طرف سے جموںکشمیر میں پیسوں کے آنے کے بارے میں پوچھے جانے پر کہا کہ یہ مرکزی حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ ان پیسوں کو جموںکشمیر میں داخل ہونے سے روکے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK