EPAPER
Updated: July 15, 2021, 6:50 AM IST | New Delhi
محمد ناصر کی پٹیشن پرعدالتی حکم کے باوجود ایف آئی آر درج نہ کرنا مہنگا پڑا، کورٹ نے کہا : ایسا لگتا ہے کہ پولیس ملزمین کو بچارہی ہے
دہلی فساد کے دوران شرپسندوں کی فائرنگ میںاپنی ایک آنکھ گنوادینےوالے محمد ناصر (۳۴؍ سال) کی پٹیشن پر عدالت کے حکم کے باوجود فسادیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے میں آناکانی دہلی پولیس کو مہنگی پڑ گئی۔ دہلی کے کرکرڈوما کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو نے اپنے سخت فیصلے میں پولیس پر نہ صرف ۲۵؍ ہزار کا جرمانہ عائد کیا ہے بلکہ یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ پولیس ملزمین کو بچانے کی کوشش کررہی ہے۔‘‘ کورٹ نے اس ضمن میں کی گئی پولیس کی جانچ کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے دہلی پولیس کمشنر کی توجہ بھی اس جانب مبذول کرائی ہےا ور اصلاحی اقدامات کی ہدایت دی ہے ۔
بھجن پورہ پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ اوکی سرزنش
کورٹ نے اپنے انتہائی سخت فیصلے میں کہا ہے کہ بھجن پورہ پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او اور ان کے سپروائزنگ آفیسر’’اپنی قانونی ڈیوٹی کو نبھانے میں افسوناک طریقے سے ناکام ثابت ہوئے ہیں۔‘‘عدالت مجسٹریٹ کورٹ کے اس حکم کے خلاف دہلی پولیس کی پٹیشن پر شنوائی کر رہی تھی جس میں ناصر کی اپیل پر کورٹ نے ملزمین کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیاتھا۔ ایف آئی آر درج کرنے کے بجائے اس فیصلے کو پولیس نے سیشن جج کے سامنے چیلنج کیا تھا۔ فیصلے پر نظر ثانی کی پٹیشن کو خارج کرتے ہوئے جج ونود یادو نے کہا ہے کہ ’’نظر ثانی پٹیشن میں ہمیں کوئی افادیت نظر نہیں آتی۔اسے خارج کرتے ہوئے ۲۵؍ ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا جاتا ہے جو ڈی سی پی(شمال مشرقی دہلی ) دہلی لیگل سروس اتھاریٹی میں ایک ہفتے کے اندر اندر جمع کرائیں۔ یہ رقم عرضی گزار ایس ایچ او اور سپروائزنگ افسر سے لی جائے کیوں کہ وہ دونوں اپنی قانونی ذمہ داریوں کو نبھانے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں۔‘‘ جرمانہ عائد کرتے ہوئے کورٹ نے کہا ہے کہ پورا معاملہ دیکھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ پولیس ہی ملزمین کو بچا رہی ہے ۔ عدالت نے کہا ہے کہ پولیس نے اپنا کام صحیح طریقہ سے نہیں کیا اس نے بہت ہی ڈھیلا ڈھالا رویہ اختیار کیا ہے لہٰذا اس پر ۲۵؍ ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا جا تا ہے۔
ناصر پر فائرنگ کرنے والے آزاد گھوم رہے ہیں
معلوم ہو کہ محمد ناصر کو دہلی فساد کے دوران ۲۴؍ فروری ۲۰۲۰ء کو آنکھ میں گولی لگی تھی ۔ انہوں نے فائرنگ کرنے والوں نریش تیاگی ، سبھا ش تیاگی ، اتم تیاگی ، سشیل اور نریش گور کے خلاف پولیس سے تحریری شکایت کی تھی مگر پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ محمد ناصر کا الزام ہے کہ دہلی پولیس نے ان کی شکایت پر ایف آئی آر درج کرنے کے بجائے اسے ایک دوسری ایف آئی آر سے جوڑ دیا۔ اس کے خلاف ناصر نے ۱۷؍جولائی ۲۰۲۰ء کومجسٹریٹ کورٹ میں پٹیشن داخل کی ۔ ۲۱؍ اکتوبر ۲۰۲۰ء کو کورٹ نے دہلی پولیس کو محمد ناصر کی شکایت پر۲۴؍ گھنٹے کے اندر اندر ایف آئی آر درج کرنے کے حکم دیا مگر اس پر عمل کرنے کے بجائے دہلی پولیس نے ۲۹؍ اکتوبر ۲۰۲۰ء کو میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کورٹ کے فیصلے کو سیشن میں چیلنج کردیا۔ سیشن کورٹ نے ذیلی عدالت کے حکم پر اسٹے عائد کرتے ہوئے معاملے کی سماعت کی اور ۱۳؍ جولائی کو پولیس کے خلاف ہی فیصلہ سنایا جو پولیس کے خلاف ہے۔
ملزمین کو کلین چٹ کیسے دیدی گئی
کورٹ نے اس معاملہ میں دہلی پولیس کی سخت سرزنش کی ہے ۔ مقامی عدالت نے کہا کہ دہلی پولیس کا رویہ چونکا دینے والا ہے ۔ پولیس نے بغیر جانچ کئے ملزمین کو کلین چٹ کیسے دے دی ؟ کورٹ نے کہا کہ دہلی پولیس نے اس پورے معاملے کی جانچ بہت ڈھیلے ڈھالے انداز میں بے توجہی کے ساتھ کی ہے ۔ عدالت نے کہا کہ پورے معاملے کو دیکھنے پر سمجھ میں آتا ہے کہ پولیس ہی ملزمین کو بچانےکی کوشش کررہی ہے ۔
ناصرکوپولیس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اختیار
کورٹ نے دہلی پولیس کمشنر کو بھی ہدایت دی ہے کہ ایسے معاملوں میں جانچ بہت صحیح طریقہ سے کی جائے۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے واضح کیا ہے کہ متاثرہ محمد ناصر کو یہ اختیار ہے کہ وہ پولیس کے اس رویے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے۔ عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کیا جا رہا ہے ۔ معروف سماجی کارکن شبنم ہاشمی کے مطابق ’’یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ عدالت نے پولیس کے رول کا نوٹس لیاہے کیونکہ ابھی تک یہی نہیں ہو رہا تھا جبکہ ثبوت موجود ہیں کہ پولیس خود لوگوں کو مار رہی ہے اور فسادیوں کے ساتھ کھڑی ہے ۔‘‘