EPAPER
Updated: March 10, 2021, 9:29 AM IST | Agency | New Delhi
خبروں کی نشرواشاعت کو آئی ٹی ایکٹ کے دائرہ اختیار سے باہر قراردیا، کہا کہ جمہوریت میں اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی
سوشل میڈیا اور او ٹی ٹی پلیٹ فارمس کے ساتھ ہی ساتھ ڈیجیٹل نیوز میڈیا کیلئے بھی مرکزی حکومت کے تازہ ضوابط ’’انفارمیشن ٹیکنالوجی رولس ۲۰۲۱ء‘‘ کو چیلنج کرنے والی پٹیشن پر دہلی ہائی کورٹ نے منگل کو مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا ہے۔ یہ پٹیشن ڈیجیٹل نیوز میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کے خلاف ’فاؤنڈیشن آف انڈیپنڈنٹ جرنلزم ‘‘ نے دائر کی ہے جو دی وائر ویب سائٹ اور نیوز چینل کی پبلشر ہے۔عرضی گزاروں میں دی وائر کے بانی ایڈیٹر ایم کے وینو اور دی نیوز منٹ کے بانی اور ایڈیٹر اِن چیف دھنیہ راجیندرن بھی شامل ہیں۔
انہوں نے ضوابط کے اسی حصے کو چیلنج کیا ہے جو ڈیجیٹل میڈیا سےمتعلق ہے اور واضح کیا ہے کہ ڈیجیٹل نیوز میڈیا آئی ٹی ایکٹ کے دائرہ اختیار کے باہر ہے۔ مثال پیش کرتے ہوئے عرضی گزار کے وکیل نے کورٹ میں کہا کہ یہ ایسا ہے جیسے پاور لوم کو الیکٹرسٹی ایکٹ کے تحت منضبط کیاجائے کیوں کہ وہ الیکٹرک استعمال کرتے ہیں۔
پٹیشن میں نئے ضوابط کے تحت ممکنہ ’’جبریہ کارروائی‘‘ کا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے عبوری چھوٹ بھی مانگی گئی ہے۔ چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس جسمیت سنگھ کی بنچ نے اس پر کہا ہے کہ ایسی کسی کارروائی کی صورت میں وہ کورٹ سے رجوع ہوں۔ عدالت نے الیکٹرانکس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی منسٹری اور وزارت برائے اطلاعات ونشریات سے جواب طلب کیا ہے۔
دی وائر نے دلیل دی ہے کہ ان ضوابط کی بنیاد پر ڈیجیٹل نیوز پرحکومت کو نظررکھنے کا اختیار ہوجائےگا جو پریس کونسل ایکٹ ۱۹۷۸ء کے خلاف ہے۔ مذکورہ ایکٹ حکومت کی مداخلت کے بغیر اخبارات کو منضبط کرنے کی وکالت کرتا ہے۔ ایڈوکیٹ نتیا رام کرشنن نے عرضی گزاروں کی جانب سے پیروی کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے ضوابط نیوز میڈیا اور حالات حاضرہ کے مشمولات کے متعلق’’آئی ٹی ایکٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔‘‘ اس کے ساتھ ہی انہوں نے زور دیا کہ نئے ضوابط’’ایسے ہیں جنہیں جمہوریت میں منظوری نہیں دی جاسکتی۔‘‘ حکومت کے ان ضوابط پر ایڈیٹرس گلڈ اور صحافیوں کی دیگر تنظیمیں بھی صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے انہیں میڈیا کی آزادی کے منافی بتاچکی ہیں۔