EPAPER
Updated: January 02, 2022, 1:19 AM IST | Mumbai
ملک کے حالات پر سرسری نگاہ ڈالنے سے بہت سے حقائق نگاہوں سے اوجھل ہی رہیں گے۔ ان حالات کا باریک بینی سے جائزہ لینا اور انہیں سمجھنا ازحد ضروری ہے کہ ہوکیا رہا ہے۔
ملک کے مایہ ناز اسکالر بھانو پرتاپ مہتا نے متنبہ کیا ہے کہ ہمارے پورے ملک میں کشمیر جیسے حالات پیدا ہونے کو ہیں۔ ان کا مطمح نظر یہ ہے کہ پولس کے اختیارات کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے جس طرح کشمیر کے حالات ہیں بالکل اسی طرح ملک کے حالات ہوجائیں تو حیرت نہیں ہوگی البتہ یہ بہت افسوسناک ہوگا۔ اگر ہم ماضی قریب کے واقعات کا جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ بھانو پرتاپ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں وہ بے بنیاد نہیں ہے۔ کشمیر میں بار بار انٹرنیٹ بند کیا جاتا رہا کیونکہ حکومت گویا تمام آبادی کوسزا دینا چاہتی ہے۔ سال ۲۰۲۰ء اس طرح گزرا کہ بیشتر اوقات انٹرنیٹ سروس منقطع رہی جس کے نتیجے میں آن لائن تعلیم و تدریس موقوف رہی اور ادویات کی آن لائن خریداری بھی ممکن نہیں تھی۔ آپ جانتے ہیں کہ کشمیر میں تشدد ۲۰۰۱ء میں عروج پر تھا۔ اس وقت موبائل فون تھا نہ انٹرنیٹ سروس عام تھی اس کے باوجود یہ سمجھنا ، یا، طے کرلینا کہ موبائل اور انٹرنیٹ کی وجہ سے حالات خراب ہوں گے یا تشدد بڑھے گا خالی از منطق ہے۔ سنگھو اور ٹیکری پر احتجاجی مظاہرہ کرنے والے کسانوں کو جنہیں دہلی میں داخل نہیں ہونے دیا گیا تھا، انٹرنیٹ خدمات سے بھی محروم کیا گیا۔ ایسا کیوں تھا یہ ہم نہیں جانتے، ہمیں کچھ بتایا بھی نہیں گیا۔ ممکن ہے حکومت نے یہ سوچا ہو کہ جب کشمیر میں ایسا ہوسکتا ہے تو دہلی کی سرحدوں پر کسانوں کے ساتھ بھی کیا جاسکتا ہے۔۲۰۱۴ء کے بعد سے وطن عزیز سب سے زیادہ ’’انٹرنیٹ بند‘‘ والا ملک قرار پایا اور اسی بنیاد پر یہ اندیشہ لاحق ہوتا ہے کہ ملک کے دیگر حصوں کو بھی کشمیر جیسا بنایا جارہا ہے یا بنایا جاسکتا ہے۔
ایک اور مثال یواے پی اے کی ہے۔ یہ وہ قانون ہے جو شدت پسندی سے نمٹنے کیلئے بنایا گیا تھا مگر آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس کا استعمال مخالفین سے نمٹنے یا اُنہیں ’’سبق سکھانے‘‘ کیلئے کیا جارہا ہے چنانچہ اس کا اطلاق مدرّسوں، صحافیوں اور سوشل ایکٹیوسٹ یعنی سماجی خدمتگاروں کے خلاف کیا گیا۔ اتنا ہی نہیں، جس طرح کشمیر میں داخلی نقد و نظر (انٹرنل چیکس اینڈ بیلنسیس) کا نظام مثلاً عدلیہ مؤثر نہیں رہ گیا ہے اسی طرح ملک کے دیگر حصوں میں بھی اس کا خدشہ ہے اور اسی بنیاد پر یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ ملک کے حالات کشمیر سے مشابہ ہوتے جارہے ہیں۔ اس کیفیت یا عمل کو ’’کشمیری فکیشن‘‘ نام دیا جاسکتا ہے۔
ایک طرف کشمیر جیسے حالات کا احتمال ہے تو دوسری طرف گجرات جیسے حالات بھی محسوس ہوتے ہیں جسے ’’گجراتی فکیشن‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اس کا اظہار کیسے ہوتا ہے؟ اس کا جواب پانے کیلئے ماضی میں اس کا اظہار کیسے ہوا یہ دیکھنا ہوگا۔ کاشتکار پاٹی دار برادریکے بارے میں سمجھا جاتا تھا کہ اُن کا طرز عمل غیرلچکدار ہے اور وہ اپنی بات پر اڑنے والوں میں سے ہیں۔ اس کے برخلاف کاروباری برادریوں سے تعلق رکھنے والوں کے بارے میں سمجھا جاتا تھا کہ اُن کا طرز عمل مصالحتی ہے۔
پاکستانی صحافی خالد احمد نے گجراتیوں کےبارے میں لکھا ہے کہ کس طرح اُن کے طرز عمل کی لچک کا تعلق اُن کے کاروباری برادری کا ہونے سے ہے۔ مغلوں اور انگریزوں کیلئے شہر سورت کی کافی اہمیت تھی اور اس کا سبب اس شہر کی کاروباری سرگرمیاں ہیں۔ عموماً کاروباری لوگ اپنی بات پر اَڑنے والے نہیں ہوتے بلکہ مزاجاً مصلحت پسند اور سمجھوتہ کرنے والے ہوتے ہیں۔ گجرات کے دیگر شہر اور علاقے بھی تجارتی مقاصد کے تحت بیرونی دُنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس طرح، یہ گجرات کی بڑی خوبی ہے مگر یہی ریاست بعض معاملات میں قدامت پسند اور تحفظ پسند بھی واقع ہوئی ہے۔ ریاستی راجدھانی کی باگ ڈور محض چند برادریوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے جو اپنے رسوم و رواج کو ریاست کے دیگر حصوں میں جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کا عکس آپ پورے ہندوستان پر مخصوص ایجنڈا کے نافذ کئے جانے کی حقیقت میں دیکھ سکتے ہیں۔ ملک کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کا فیصلہ کرنے کا طریقہ بھی اس کا غماز ہے۔ آج کے ’’گجرات زدہ ہندوستان‘‘ (گجراتی فائیڈ انڈیا) میں ہم سرمائے کی قدر اور دولت کاجو جشن دیکھ رہے ہیں وہ کیا ہے؟ ۲۱۔۲۰۲۰ء میں پورا ملک وبائی حالات سے نبرد آزما تھا مگر اسی دور میں ملک کے مالدار ترین لوگوں میں کئی نئے ارب پتی شامل ہوئے جبکہ ۲۳؍ کروڑ ہندوستانی غریب آبادی کا حصہ بنے۔ جو لوگ ارب پتیوں میں شامل ہوئے ان کی شہرت تو کافی ہوئی مگر جو غربت کی جانب لڑھک گئے اُنہیں کوئی نہیں جانتا۔ اسی رَو میں یہ حقیقت بھی اُجاگر نہیں ہوسکی کہ ارب پتی بننے کا جو ماحول بنا ہے وہ ازخود نہیں بنا۔ اس کے پیچھے باقاعدہ کوشش ہے۔
مالدار ترین لوگوں کی معاشی حالت میں مزید استحکام دراصل اس معاشی پالیسی کا نتیجہ ہے جو ۲۰۱۴ء کے بعد نافذ ہوئی اور جس کا مقصد ہی مالدار لوگوں کو طاقت دینا اور اُن کے مال و متاع کیلئے سازگار فضا پیدا کرنا تھا۔ نوٹ بندی کے ذریعہ چھوٹے تاجروں اور صنعتکاروں کو روند دیا گیا۔ اُن کے کاروبار یا اُن کی تجارت اُن کی نہیں رہ گئی۔ اس پر کارپوریٹس کا قبضہ ہوگیا۔ جی ایس ٹی کا مقصد بھی چھوٹے تاجروں اور کاروباریوں کو تنگ کرنا تھا اور ٹیکس کے اس نئے نظام نے وہی کیا۔ ۲۰۱۷ء میں جی ایس ٹی کے خلاف سورت اور احمد آباد کے تاجروں نے جو احتجای مظاہرے کئے اُن پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ تاجر اور کاروباری برادری میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ کسانوں کی طرح اپنے احتجاج کو لمبے عرصے تک جاری رکھتے جس کے پیش نظر وزیر اعظم نے تین زرعی قوانین کو واپس لیا۔ یہ کسانوں کی تاجروں پر فتح تھی۔
وزیر اعظم نے جو زرعی قوانین بنائے اُن کے ذریعہ فصلوں کی فروخت کے موجودہ نظام کو تحلیل کرنا تھا او راس کی جگہ ایسا نظام لانا تھا جو تاجروں اور کاروباری لوگوں کو فائدہ پہنچا سکے۔ اس نکتے کو کسانوں نے بڑی باریکی کے ساتھ محسوس کیا اور اس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی آسان تحریک نہیں تھی مگر کسانوں نے اسے کامیاب بناکر و کیا وہ اب تاریخ ہے۔ n