Inquilab Logo Happiest Places to Work

حکومت جھک سکتی ہے جھکانے والا چاہئے

Updated: December 03, 2020, 6:00 AM IST | Khalid Shaikh | Mumbai

شاہین باغ کے بعد یہ دوسرا موقع ہے جب کسان اپنے مطالبات پر ڈٹے رہے اور حکومت کو پسپائی اور گفتگو کی پیشکش پر مجبور کردیا۔ مودی کو چاہئے کہ انا کے خول سے باہر نکلیں اور کسی بھی فیصلے اور قانون کو تھوپنے سے پہلےاس کا آگا پیچھا سوچیں اوراس سے متاثر ہونے والوں کو اعتماد میں لیں ۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

 ہم مودی کے مدّاح بھی ہیں اور مخالف بھی ۔ مدّاح اسلئے کہ ان میں قائدانہ صلاحیتیں پائی جاتی ہیں اور وہ سخت فیصلے کرنے کے اہل ہیں ۔ مخالف اس لئے کہ وہ جو کہتے ہیں کرتے نہیں ۔ اگر وہ آج بھی اپنی صلاحیتوں کو صحیح رخ پر موڑدیں اور کہنی کرنی کے فرق کو مٹادیں تو انہیں سب کا ساتھ اور سب کا وشواش جیتنے میں دیر نہیں لگے گی لیکن وہ ایسا نہیں کریں گے۔ ان کے اندر کا پرچارک اس میں مانع ہوتا ہے۔ وہ آر ایس ایس کے منقسمانہ نظریات کے اسیر ہیں اوراس کے حصار سے باہر نکلنے کا حوصلہ ان میں نہیں ہے۔ آر ایس ایس آئیڈیالوجی کا بنیادی ایجنڈا سنگھی برانڈ ، ہندوراشٹر کا قیام ہے جہاں اقلیتوں ، بالخصوص مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بن کر رہنا ہوگا۔ مودی ایک شاطر سیاستداں اور اچھے مقرر ہونے کے ساتھ بہت اچھے ایکٹر ، ایونٹ اور مارکیٹنگ منیجر ہیں ۔ گاہک دیکھ کر پڑیا باندھنے کا ہنر انہیں آتا ہے ۔ موقع دیکھ کر وہ اپنی غربت کا رونا رونے سے نہیں چُوکتے او ر خود نمائی کے لئے اپنا ہرکام اور ہرتقریب بڑے پیمانے پر کرتے ہیں ۔ اسی طرح وہ اپنی مصنوعات ( اسکیموں ) کو خوبصورت پیکنگ اورنام دے کر جس طرح پیش کرتے ہیں ، اس کے فائدے گناتے ہیں ، اس سے لوگوں کو ان پر یقین کرنے کے علاوہ کوئی چارا نہیں ہوتا۔ یہ اور بات ہے کہ کہنی اورکرنی کا فرق جلد ہی ان کی قلعی کھول دیتا ہے۔ یاد کیجئے ان تمام بڑےدعووں اور وعدوں کو جو مودی گزشتہ ۷؍ برسوں سے کرتے چلے آئے ہیں کیا ہمارے اچھے دن آئے؟ کیا نوٹ بندی سے کالے دھن اور کرپشن کا خاتمہ ہوا؟ جی ایس ٹی سے چھوٹے اور متوسط کاروباریوں کی ڈھارس بندھی ؟ سرجیکل اسٹرائیک سے سرحد پار کی دہشت گردی میں کمی آئی؟ سالانہ دوکروڑ ملازمتیں پیدا ہوئیں ؟ آرٹیکل ۳۷۰؍ کی منسوخی سے کشمیر کے مسائل حل ہوئے ؟ مہنگائی اور غربت میں کمی آئی؟ تالی وتھالی پیٹنے اور دیاجلانے سے کورونا باگ گیا اور فوجیوں پر پھول برسانے سے چین نے گلوان وادی خالی کردی ؟ وغیرہ وغیرہ وغیرہ ۔ اگر مودی حکومت کی کارکردگی کا بیلنس شیٹ تیارکیاجائے تو خسارہ ہی خسارہ نظر آئے گا۔ 
  مودی دور میں مسلمانوں کا حال سب سے برا ہوا۔ بی جے پی حکومتوں نے سب سے پہلے ان کے رہن سہن اورکھان پان پر پابندی لگائی ، اب سنگھ پریوار اور حکومتوں کی نظریں اس پر ہیں کہ آپ کیا پڑھتے ہیں ، یا لکھتے ہیں ، کس سے ملتے ہیں اورکس سے شادی کرتے ہیں ؟ اگر آپ نے کسی ہندو لڑکی سے شادی کی تو اس کے رشتہ داروں کی شکایت پر جیل اور جرمانہ آپ کا منتظر ہوگا۔ اوریہ فیصلہ بعد میں ہوگا کہ لڑکی نے بالجبر تبدیلی ٔ مذہب کی یا اپنی مرضی سے۔ اگرکوئی غیرمسلم مودی یا حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتا ہے تو اس پر اینٹی نیشنل یا اربن نکسل کا الزام لگتا ہے لیکن یہی جرأت کوئی مسلمان کرے تو اس پر غداری اور پاکستانی ہونے کا لیبل چسپاں کردیاجاتا ہے۔مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی مہم آسام کے این آرسی سے شروع ہوئی لیکن پانسہ الٹا پڑگیا۔ وہاں اُس میں شامل نہ ہونے والے ۱۹؍ لاکھ لوگوں میں سے ۱۳؍ لاکھ ہندو نکلے اور ۶؍ لاکھ مسلمان۔ یہ اعدادحکومت کی توقع کے خلاف تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ قانون کے خلاف احتجاج اور مظاہروں کا آغاز بھی آسام اور دیگر شمال مشرقی ریاستوں سے ہوا۔ ان مظاہروں سے متاثر ہوکر گزشتہ سال دسمبر میں جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ نے اس کی کمان سنبھالی ۔ پولیس کریک ڈاؤن کے بعد ملک کی دیگر یونیورسٹیوں کے طلبہ ان کی حمایت میں سڑکوں پر اترآئےاور یہ تحریک پورے ملک میں پھیل گئی لیکن اسے جو شہرت اور مقبولیت شاہین باغ میں بیٹھی خواتین کے دھرنے اوران کی عزیمت سے ملی اس سے ملک کا ہر چھوٹا بڑا شہر شاہین باغ میں تبدیل ہوگیا۔ حکومت کیلئے پریشانی کی بات یہ تھی کہ وہ مظاہرین سے تو نمٹ سکتی تھی لیکن ۸؍ سال سے ۸۰؍ سال کی خواتین سے نپٹنے کا طریقہ اسے نہیں سوجھ رہا تھا۔ اس لئے کورٹ سے بھی راحت نہ ملنے پر خواتین کو بدنام کرنے کی مہم شروع کی گئی۔ لفٹننٹ گورنر سے ملاقات کے دوران بھی خواتین اپنے موقف پر ڈٹی رہیں اوران سے گزارش کی کہ وہ حکومت سے شہریت قانون واپس لینے کی درخواست کریں ۔ ایسا کچھ تو نہیں ہوا تو کوئی راہ فرار نہ پاکر حکومت نے یکم فروری ۲۰۲۰ء کو گفتگو کی پیشکش ان شرطوں کے ساتھ کی کہ خواتین کے نمائندے از خود حکومت سے رابطہ قائم کریں اور گفتگو بند کمرے میں ہو۔ بات نہیں بنی کیونکہ خواتین اور ان کے نمائندے مصر تھے کہ گفتگو شاہین باغ کے اسٹیج پر ہو۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔
 یہ صورت کسان آندولن کے ساتھ بھی پیش آئی جس کا سبب وہ تین زرعی قوانین ہیں جنہیں حکومت نے بغیر بحث ومباحثے اور کسان یونین کے نمائندوں کو اعتماد میں لئے بغیر پاس کیا۔ حکومت انہیں کسانوں کیلئے سود مند بتاتی ہے، کسان نقصان دہ بتاتے ہیں کہ اس سے ان کی آمدنی متاثر ہوگی جبکہ فائدہ اڈانی اور امبانی جیسے صنعتکاروں کو ہوگا جو رفتہ رفتہ کسانوں کو زمین سے بے دخل کرکے اسے ہتھیالیں گے ۔ قوانین کے نقصان کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ بی جے پی کے پرانے حلیف اکالی دل نے این ڈی اے سے ناطہ توڑلیا اور ہریانہ کے نائب وزیراعلیٰ دُشینت چوٹالہ نے دھمکی دی ہے کہ مسئلہ کا حل جلد نہ نکلا تو ان کی پارٹی کھٹّر حکومت کی حمایت واپس لے لے گی۔ فی الحال احتجاج کی کمان پنجاب کے کسان سنبھالے ہوئے ہیں ۔ جس میں ہریانہ ، ایم پی اور یوپی کے کسان بھی شامل ہیں ۔ اگر آج بھی مذاکرات کا کوئی حل نہیں نکلا تو مہاراشٹر ، آندھرا پردیش اور راجستھان سمیت دیگر ریاستوں کے کسان بھی آندولن میں شریک ہوجائیں گے۔ شاہین باغ کے بعد یہ دوسرا موقع ہے جب کسان اپنے مطالبات پر ڈٹے رہے اور حکومت کو پسپائی اور گفتگو کی پیشکش پر مجبور کردیا۔ مودی کو چاہئے کہ انا کے خول سے باہر نکلیں اور کسی بھی فیصلے اور قانون کو تھوپنے سے پہلےاس کا آگا پیچھا سوچیں اوراس سے متاثر ہونے والوں کو اعتماد میں لیں ۔ کسان آندولن نے ثابت کردیا کہ حکومت کو جھکایا جاسکتا ہے ، جھکانے والا چاہئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK