Inquilab Logo Happiest Places to Work

بڑھتی مہنگائی، بڑھتی پریشانی

Updated: July 23, 2021, 8:56 AM IST | Mumbai

مہنگائی کے خلاف آئے دن کا احتجاج اور ہر احتجاجی مظاہرے کو ملنے والی عوامی حمایت سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ مسئلہ عوام کو کتنا پریشان کرتا ہے اور اس کے سبب عوام میں کتنی بے چینی پیدا ہوتی ہے۔

rising inflation rising anxiety.Picture:INN
بڑھتی مہنگائی، بڑھتی پریشانی تصویر آئی این این

مہنگائی کے خلاف آئے دن کا احتجاج اور ہر احتجاجی مظاہرے کو ملنے والی عوامی حمایت سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ مسئلہ عوام کو کتنا پریشان کرتا ہے اور اس کے سبب عوام میں کتنی بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ آزاد ہندوستان کی سیاسی و سماجی تاریخ بھی گواہ ہے کہ جب جب مہنگائی بے قابو ہوئی ہے، لوگ سڑکوں پر اُترے ہیں اور حکومت کو اس کا نوٹس لینا پڑا ہے۔ اگر حکومت نے نوٹس نہیں لیا تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ عوام نے حکمراں جماعتوں کو تبدیل کردیا۔ یوپی اے کو ۲۰۱۴ء میں اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا تھا، اس کے دیگر اسباب میں ایک اہم اور بڑا سبب مہنگائی  تھا۔ اُس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی نے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی سرکار کو ہدف تنقید بنائے رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اس پر ڈاکٹر سنگھ کی خاموشی کو بھی نت نئے القاب سے نوازا گیا تھا جن میں سے ایک تھا ’’مَون مَون سنگھ۔‘‘ مگر اب جبکہ مہنگائی نئی بلندیوں کو چھو‘ رہی ہے، حکمراں جماعت ماضی کے اپنے  اپوزیشن والے کردار کو بھول رہی ہے اور وزیر اعظم مودی نے بالکل ویسی ہی خاموشی اختیار کرلی ہے جیسی سابقہ وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے اختیار کی تھی۔
 مگر مہنگائی کا سد باب تو ہونا چاہئے۔ مارچ ۲۰ء سے جولائی ۲۱ء تک کے ۱۶۔۱۷؍ ماہ کس قیامت کے گزرے اس پر کچھ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ یہ دور بڑے اضطراب کا دور تھا جو اَب بھی ختم نہیں ہوا ہے۔ اس میں پیدا ہونے والے سماجی اور نفسیاتی مسائل کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ معاش کے چھن جانے یا آمدنی کے کم ہوجانے کا بھی ہے۔مہنگائی اس زخم پر نمک پاشی کررہی ہے۔ مئی ۲۰۲۱ء میں ملک کے خردہ بازار میں افراط زر کی شرح ۶ء۳؍ فیصد تھی جس میں دیہی افراط زر (۶ء۴۸؍ فیصد) شہری افراط زر (۶ء۰۴؍ فیصد) سے زیادہ تھا جبکہ ریزرو بینک نے اس شرح کی زیادہ سے زیادہ حد ۶؍ فیصد بتائی تھی۔ معلوم ہوا کہ یہ شرح زیادہ سے زیادہ حد کے بھی پار ہوچکی ہے۔ خوردنی تیل کی قیمتوں میں ۳۰ء۸۴؍ فیصد کا اضافہ کوئی معمولی اضافہ نہیں ہے۔ اسی طرح ایندھن کی قیمتوں میں بار بار اضافے کے بعد صورتحال یہ ہے کہ عوام کبھی خود کو، کبھی بڑھتی قیمتوں کو دیکھتے ہیں۔ دالوں کے دام بھی ہوش رُبا ہوچکے ہیں۔ ان میں ایندھن کی مہنگائی ایسی ہے کہ جس کا اثر خریدوفروخت کی ہر شے پر پڑتا ہے۔ عوام کی ضروریات زندگی کی ہر شے مہنگی ہوجاتی ہے بالخصوص غذائی اشیاء۔ ممکن ہے حکومت یہ سوچ رہی ہو کہ کووڈ کی پابندیاں ہٹ جانے کے بعد جب ڈیمانڈ اور سپلائی کی مساوات بہتر ہوجائیگی اور اچھی بارش کےسبب خوردنی اشیاء کی قیمتیں ازخود کم ہوجائینگی تب افراط زر بھی کم ہوجائیگا لہٰذا اس پر زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے نہ ہی عوامی و سیاسی دباؤ کے سبب ایندھن کی قیمتوں کو کم کرنے کی۔
 کیا حکومت یہی سوچ رہی ہے؟ یہ بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی مگرایسی کوئی پالیسی عوام کے ساتھ سخت ناانصافی ہے۔ حکومت کیلئے لازمی ہے کہ ایندھن کی قیمتوں کے اضافے کو فوری طور پر روکے تاکہ اشیائے خوردنی کی قیمتوں کوقابو میں رکھا جاسکے۔ اگر یہ نہیں ہوا اور دیگر اشیاء کی مہنگائی کم نہیں ہوئی تو یہ پائیدار ترقیاتی منصوبوں کو بے اثر کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ ویسے بھی افلاس زدہ لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جس کے اشارے کئی جانب سے مل رہے ہیں۔ ان حالات میں حکومت کو فوراً حرکت میں آنے اور ہر ممکن اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ اس حکومت کے ساتھ بھی وہی ہوگا جو یو پی اے کے ساتھ ہوا۔     n

inflation Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK