EPAPER
Updated: December 13, 2019, 8:42 PM IST | Asim Jalal | Mumbai
کیا وزیراعظم پارلیمنٹ کو اس لائق نہیں سمجھتے کہ وہاں اٹھنے والے سوالوں کا جواب وہیں پر دیں؟ کیا یہ جمہوریت کے اُس مندر کی توہین نہیں جس میں پہلی بار داخل ہوتے ہوئے مودی نے ماتھا ٹیکاتھا اور جذباتی ہوکر روپڑے تھے؟
وزیراعظم نریندر مودی اپنی مثال آپ ہیں۔ وہ کبھی بہت بولتے ہیں اور کبھی اچانک خاموش ہو جاتے ہیں، جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ اکثر بات بے بات بولنا ان کا طرہ ٔ امتیاز ہے مگر جب لوگ ان سے بولنے کی توقع کررہے ہوں تو خاموش رہنا ان کی خاصیت۔ عوام نے انہیں منتخب تو پارلیمنٹ میں مباحثوں میں حصہ لے کر ملک کیلئے بہترین پالیسیاں مرتب کرنے کیلئے کیاتھا مگر وہ ایوان میں بولنے سے زیادہ انتخابی محفلوں میں بولنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی حکومت ایوان میں غوروخوض کے بعد قانون وضع کرنے کے بجائے اپنے تیار کردہ قانون کو اپوزیشن کے اعتراضات یا مشوروں کو نظر انداز کرتے ہوئے پاس کرنے میں یقین رکھتی ہے یا پھر سیدھے آرڈیننس کا راستہ اختیار کرکے پارلیمنٹ کو ہی بے اثر کردینے کا ہنر جانتی ہے۔ طلاق ثلاثہ بل اس کی ایک مثال ہے۔
پارلیمنٹ میں مودی کی حاضری کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں کیوں کہ وزیراعظم کو حاضری رجسٹر میں اندراج کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اس لئے یہ نہیں بتایا جاسکتا کہ گزشتہ ۴؍ برسوں میں انہوں نے پارلیمنٹ کو کتنے گھنٹے دیئے مگر اس کا اندازہ راجیہ سبھا میں آل انڈیا ترنمول کانگریس کے رکن ڈیرک او برائن کے انکشافات سے ہوتا ہے۔ انہوں نے پارلیمنٹ کے ریکارڈس کے حوالے سے بتایا ہےکہ گزشتہ سال یعنی ۲۰۱۸ء میں وزیراعظم جتنا لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں کل ملا کر بولے ہیں اس سے کہیں زیادہ وقت انہوں نے صرف گجرات کی انتخابی مہموں کے دوران تقاریر پر صرف کیا۔ ڈیرک نے بتایا ہے کہ۲۰۱۸ء میں وزیراعظم پارلیمنٹ میں کل ملا کر ۲۴؍ گھنٹے بولے جس میں ۱۰؍ گھنٹے راجیہ میں اور ۱۴؍ گھنٹے لوک سبھا میں ان کی تقریریں ہوئیں جبکہ گجرات کے اسمبلی انتخابات کے دوران وزیراعظم نے انتخابی ریلیوں میں ۳۷؍ گھنٹے تقاریر کیں۔ یہ حال ملک کے ایسے وزیراعظم کا ہے جو الیکشن جیتنے کے بعد جب ایوان میں پہلی بار داخل ہواتو انتہائی جذباتی ہو گیا، سیڑھیوں پر ماتھا ٹیکا، انہیں چوما، پارلیمنٹ کو جمہوریت کا مندر قرار دیا اور اپنی پہلی تقریر کے دوران کئی بار آنسو پونچھے۔ ٹویٹر میں اب یہ سوال خوب پوچھا جا رہاہے کہ اب جب وہی مندر (پارلیمنٹ ) کھلتا ہے تو وزیراعظم کہاں غائب ہوجاتے ہیں۔
وزیراعظم کبھی ملک سے باہر رہنے پر تو کبھی پا رلیمنٹ سے غائب رہنے پر اکثر تنقیدوں کی زد پر رہتے ہیں مگر ان کے طرز عمل سے صاف ظاہر ہے کہ ایسی تنقیدوں سے ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ان دنوں پارلیمنٹ میں رافیل معاہدہ پر زور دار مباحثے ہورہے ہیں۔ اپوزیشن نے براہ راست وزیراعظم نریندر مودی پر بدعنوانی کا الزام عائد کیا ہے۔ ہندوستان ایئروناٹکس لمیٹیڈ( ایچ اے ایل) کی جگہ انل امبانی کی کمپنی کو ٹھیکہ ملنے پر سوالات کئے جارہے ہیں، طیاروں کی قیمتوں پر سوال اٹھ رہے ہیں مگر اس مباحثے کے دوران وزیراعظم ایوان میں کہیں نظر نہیں آئے۔ وہ غائب تھے۔ان کا دفاع کبھی ارون جیٹلی کرتے ہیں تو کبھی وزیر دفاع نرملا سیتارمن کرتی ہیں۔ وزیراعظم پارلیمنٹ میں جواب دینے کے بجائے سڑکوں پر ریلیوں کے دوران جواب دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم پارلیمنٹ کو اس لائق نہیں سمجھتے کہ وہاں اٹھنے والے سوالوں کا جواب وہیں پر دیں؟ کیا یہ جمہوریت کے اس مندر کی توہین نہیں جس میں داخل ہوتے ہوئے مودی نے ماتھا ٹیکاتھا۔ وہ لوک سبھامیں نرملا سیتارمن کی تقریر کے دوسرے دن ایک پروگرام میں اس کی تعریف کرتے ہیں مگر کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ وہ اگر خود جواب نہیں دے سکتے تھے تو کم از کم اس وقت ایوان میں موجود رہتے جب ان کی ایک خاتون وزیر اپوزیشن سے لوہا لے رہی تھی۔ دیکھتے کہ اپوزیشن جواب سے مطمئن ہے یا نہیں اور اگر نہیں تو اسے مطمئن کرنے کی کوشش کرتے۔ ایوان کے باہر وزیراعظم کانگریس اور راہل گاندھی کے الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دے رہے ہیں مگر کیا ہی بہتر ہوکہ وہ اس ’’جھوٹ کے پلندہ‘‘ کاجواب ایوان میں سچائی پیش کرکے دیدیں۔ وہ اپوزیشن کے الزامات کا جواب دینے کیلئے اے این آئی کو انٹرویو تو دے سکتے ہیں مگر ایوان میں ایوان میں اپوزیشن کے سوالوں کا سامنا کیوں نہیں کرتے؟ کیا وہ اپوزیشن کو اس لائق نہیں سمجھتے کہ دوبدو اس سے بات کی جائے یا پھران کی نظر میں پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے بڑا پلیٹ فارم انتخابی ریلیاں اور دیگر پروگرام ہیں۔ یقیناً ایسا نہیں ہے مگر وزیراعظم کا طرز عمل تو یہی تاثر دے رہا ہے۔ حکومت کے چند مہینے باقی ہیں، کیا ہی بہتر ہو کہ الزام تراشی کے جواب میں الزام تراشی ، رافیل کے مقابلے میں بوفورس اور آگسٹا ویسٹ لینڈ کا حوالہ دینے کے بجائے حکومت حقائق کو منظر عام پر لائے اور تمام شکوک وشبہات کو اگر دور کرسکتی ہے تو دور کرے۔