Inquilab Logo Happiest Places to Work

معاشی پریشانی سے آتم نربھر بھارت تک

Updated: November 18, 2020, 11:46 AM IST | Editorial

ہماری معیشت ۲۰۱۵ء میں دُنیا کی سب سے تیز رفتار معیشت باور کرائی جارہی تھی۔ ۲۰۲۰ء میں اسے دُنیا کی سست ترین معیشتوں میں سے ایک قرار دیا جارہا ہے

Atma Nirbhar Bharat - Pic : INN
آتم نربھر بھارت ۔ تصویر : آئی این این

ہماری معیشت ۲۰۱۵ء میں دُنیا کی سب سے تیز رفتار معیشت باور کرائی جارہی تھی۔ ۲۰۲۰ء میں اسے دُنیا کی سست ترین معیشتوں میں سے ایک قرار دیا جارہا ہے۔ ا سکی وجوہات پر اتنی گفتگو ہوچکی ہے کہ اعادہ کی ضرورت نہیں رہی۔ ریٹنگ ایجنسیوں کی رائے بھی ہر خاص وعام کے سامنے ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں جی ڈی پی میں اضافے کی رفتار منفی ۱۰ء۳؍ رہے گی (۲۰۲۰ء کیلئے اندازہ) جبکہ ریزرو بینک آف انڈیا نے بھی ’’فل فسکل گروتھ‘‘ (مجموعی مالیاتی نمو) منفی ۹ء۵؍ بتائی ہے (مالیاتی سال ۲۰۲۱ء کیلئے)۔ حکومت نہ تو یہ تسلیم کرے گی کہ اس بُری حالت کے متعدد اسباب میں سے ایک نوٹ بندی ہے نہ ہی یہ اعتراف کرے گی کہ جی ایس ٹی عجلت میں نافذ کیا گیا تھا جس نے کاروباریوں اور بیوپاریوں کو بہت ستایا۔ اس کےبرخلاف حکومت نے مبینہ طور پر  اعدادوشمار میں تحریفات کے ذریعہ عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ معیشت کی زبوں حالی کا جو منظرنامہ پیش کیا جارہا ہے وہ مخالفین کی کارستانی ہے، معیشت کو کچھ نہیں ہوا، وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہے، توانا ہے اور اس کے تئیں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی دوران ۵؍کھرب ڈالر کی معیشت کا ہدف طے کیا گیا تاکہ ایک پُرعزم حکومت کی شبیہ پیش کرکے عوام کو اعتماد میں لیا جاسکے۔ اگر سب کچھ ٹھیک ہے تو بے روزگاری کیوں بے لگام ہے؟ حکومت نئے روزگار پیدا کرنے کے اپنے وعدہ کو پورا کرنے میں تو ناکام ہی رہی،پرانی نوکریوں کو بھی بچا نہیں سکی۔
 اس کے باوجود برسراقتدار پارٹی ہر انتخابی کامیابی کو اپنی اور حکومت کی پالیسیوں اور کارکردگی کا سرٹیفکیٹ قرار دیتی ہے۔ بہار کے حالیہ اسمبلی الیکشن کی کامیابی کے تعلق سے بھی یہی کہا جارہا ہے۔ یہ قابل قبول نہیں ہے۔ جس طرح تعلیمی اسناد علمیت اور قابلیت کا توثیق نامہ نہیں ہوتیں بالکل اسی طرح انتخابی کامیابی کو بہتر اور مؤثر کارکردگی کا ثبوت نہیں کہا جاسکتا۔ انتخا بی کامیابی کے اپنے اسباب ہوتے ہیں جن میں سے کئی تو بہت تکنیکی نوعیت کے ہیں۔ ہر الیکشن کو اپنی کارکردگی کا ریفرینڈم اور انتخا بی کامیابی کو عوامی منظوری قرار دینے کا یہ طرزعمل اپنی جگہ مگر یہ فارمولہ زیادہ عرصے تک کارگر نہیں ہو سکتا کیونکہ معاشی حالات کسی سے چھپے نہیں رہ سکتے ہیں اور اعدادوشمار کی گواہی کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ اس گلوبل ولیج میں ہر ملک کی معاشی سرگرمیوں کا سب کو اندازہ رہتا ہے۔ ریٹنگ ایجنسیوں اور مالیاتی اداروں کی نظر ایک ایک چیز پر ہوتی ہے۔ خود ساختہ استدلال کی ریت میں سر چھپا کر مطمئن ہونا ہمارے اختیار میں ضرور ہے مگراس سے حقائق بدل نہیں جاتے۔ 
 لاک ڈاؤن کے دوران غالباً مئی کی اپنی ۸؍ بجے کی ایک تقریر میں وزیر اعظم نے آتم نربھر بھارت کا نسخہ پیش کرتے ہوئے یہ سمجھانا چاہا تھا کہ آتم نربھر بھارت ہمارے معاشی مسائل کا بہترین حل ہوگا۔ اس کیلئے انہوں نے توانا معیشت، بہترین انفراسٹرکچر، ٹیکنالوجی پر مبنی سسٹم، پُرجوش آبادی اور مارکیٹ ڈیمانڈ جیسے اہداف کو آتم نربھر بھارت کے پانچ ستون قرار دیا تھا۔ یہ سن کر اچھا لگا تھا مگر نہ تو اپنی باقیماندہ تقریر میں نہ ہی تب سے لے کر اب تک یہ بتایا گیا ہے کہ مذکورہ پانچ اہداف تک پہنچ کر آتم نربھر بھارت کا سپنے کیسے ساکار ہوگا۔ 
 موجودہ حکومت کے دور میں یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ سننے کو بہت کچھ ملتا ہے، سمجھ میں بہت کم آتا ہے۔ اور یہ مشکل دور کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK