EPAPER
Updated: February 05, 2022, 12:37 PM IST | Atiq Siddiquie
ملّا نصرالدین کی ان کے پڑوسی کے ساتھ ہمیشہ اَن بَن رہتی تھی۔ دراصل اپنی شرارتوں کے سبب ملّا انہیں تنگ کیا کرتے تھے۔ اچانک ایک دن انہیں ایک نئی شرارت سوجھی.... پڑھئے مکمل کہانی:
مُلّا نصرالدین کی اپنے پڑوسی سے کبھی نہ بنتی تھی۔ کچھ پڑوسی بھی بدمزاج اور چڑچڑا تھا اور کچھ ملّا بھی اپنی عادت سے مجبور، نت نئی شرارتوں سے اُسے تنگ کیا کرتے تھے۔ اُن دنوں بھی دونوں میں اَن بَن تھی۔ گرمیوں کی ایک دوپہر ملّا گھر میں آرام کر رہے تھے کہ ذہن میں عجیب خیال آیا۔ آنکھیں چمک اُٹھیں اور ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ فوراً ہی اِس خیال کو عملی شکل دینے کا ارادہ کر لیا۔ شام ہوتے ہی ملّا نصرالدین بازار نکل گئے۔ کچھ جلیبیاں خریدیں اور پڑوسی کے گھر جا پہنچے۔ دروازے پر دستک دی۔ ’’کون ہے؟‘‘ پڑوسی کی بیوی کی آواز آئی۔ ’’مَیں ہوں بھابی، آپ کا پڑوسی نصرالدین، کیا بھائی شمس الدین گھر پر ہیں!‘‘ انہوں نے پوچھا۔ اور چند ہی لمحوں بعد پڑوسی شمس الدین باہر آیا۔ چہرے پر ناگواری تھی مگر ملّا نصرالدین بڑے تپاک سے ملے، جلیبیاں دیتے ہوئے بولے، ’’بھائی! میرے بیٹے، یعنی تمہارے بھتیجے نے اچھے نمبروں سے امتحان میں کامیابی حاصل کی ہے، اِس کی خوشی میں یہ مٹھائی لایا ہوں۔ اُمید ہے پرانی باتیں بھلا کر قبول کرو گے اور بچّے کو اپنی دعاؤں سے نوازو گے۔‘‘ پڑوسی ملّا کے خلوص بھرے انداز سے بہت متاثر ہوا۔ مٹھائی قبول کی اور گھر کے اندر چل کر ایک پیالی قہوہ پینے کی دعوت دی مگر ملّا نصرالدین نے یہ کہہ کر کہ ابھی اور لوگوں میں بھی مٹھائی تقسیم کرنا ہے، معذرت چاہی۔ دو چار روز گزر گئے۔ ملّا نصرالدین ایک دن پھر اُسی پڑوسی کے گھر جا پہنچے۔ دستک سُن کر پڑوسی باہر آیا۔ ملّا نے کہا، ’’بھائی! دوسرے شہر سے مہمان آئے ہیں، گھر میں کوئی ایسا برتن نہیں جس میں زیادہ مقدار میں کھانا پکایا جاسکے۔ تمہارے ہاں ایک بڑی دیگ ہے، اگر دے دو تو میری مشکل دور ہو جائے گی۔‘‘ پڑوسی نے دیگ لاکر اُن کے حوالے کر دی۔ ملّا نے شکریہ ادا کیا اور دو تین روز میں دیگ واپس کر دینے کا کہہ کر چل دیئے۔ پھر دو تین روز تو کیا دو تین ہفتے گزر گئے۔ ملّا نے دیگ واپس نہ کی۔ ایک آدھ بار راہ چلتے کہیں سامنا ہوا اور پڑوسی نے یاد دلایا تو بات بدل دی۔ بہت دن گزر گئے۔ ایک روز دیگ واپس کی تو اُس کے ساتھ چھوٹی سی پتیلی بھی دی۔ ’’ارے! یہ کیا؟‘‘ پڑوسی نے حیرت سے کہا، ’’یہ پتیلی تو ہماری نہیں ہے۔‘‘ ’’یہ تمہاری ہی ہے۔‘‘ ملّا نصرالدین نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’مم.... مگر.... مَیں نے تو تمہیں صرف دیگ دی تھی.... یہ پتیلی؟‘‘ پڑوسی نے کچھ نہ سمجھنے کے انداز میں کہا۔ ’’ہاں! یہ بات ٹھیک ہے کہ تم نے مجھے یہ پتیلی نہیں دی تھی مگر یہ سو فیصد تمہاری ہے اور اس پر صرف اور صرف تمہارا حق ہے.... کیونکہ یہ تمہاری دیگ کی اولاد ہے۔‘‘ ’’دیگ کی اولاد؟‘‘ پڑوسی کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔ ’’ہاں.... ہاں.... دیگ کی اولاد۔ ہمارے گھر تمہاری دیگ نے اِس پیاری سی پتیلی کو جنم دیا ہے اسی وجہ سے تو دیگ کی واپسی میں بھی دیر ہوگئی۔‘‘ ملّانصرالدین نے کہا۔ بات عجیب سی تھی۔ پڑوسی کے دل کو نہ لگتی تھی مگر مفت پتیلی ہاتھ آرہی تھی، لالچ غالب آگیا اور دیگ کے ساتھ اُس نے پتیلی بھی لے لی۔ اِس بات کو کئی ہفتے ہوگئے۔ اب ملّا اور پڑوسی کے آپس کے تعلقات بہت اچھے ہوگئے تھے۔ ایک روز ملّا پھر پڑوسی کے گھر پہنچے اور مہمانوں کے آنے کا بتا کر دیگ مانگی۔ پڑوسی نے خوشی خوشی دے دی۔ پھر دن ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں ڈھلنے لگے، ملّا نے دیگ واپس نہ کی۔ پڑوسی کو کئی بار خیال بھی آیا۔ ضرورت بھی پڑی مگر اُس نے ملّا سے تقاضا نہ کیا، اُسے یقین تھا کہ اِس بار بھی اُس کے ہاں اولاد ہوگی۔ آخر ایک روز اُس کی بیوی نے کہا، اب تو بہت دن ہوگئے ہیں، معلوم تو کرو ملّا سے کیا بات ہے۔ ’’بہت اچھا نیک بخت۔ آج ہی پوچھوں گا۔ مجھے تو خود بے چینی ہے۔‘‘ پڑوسی بولا۔ اتفاق سے کچھ دیر بعد وہ گھر سے نکلا تھا کہ ملّا سے ملاقات ہوگئی۔ اُس نے دیگ کے بارے میں پوچھا تو ملّا بولے، ’’بھائی! مَیں تمہارے گھر ہی آ رہا تھا۔ پہلے ہی آتا.... مگر ہمت نہ ہوتی تھی، مگر بتانا تو تھا ہی۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگئے، چہرے پر گہرے غم کے آثار تھے۔ ’’آخر بات کیا ہے۔ کچھ پتا تو چلے؟‘‘ پڑوسی نے بے چینی سے پوچھا۔ ’’وہ.... دراصل.... تمہاری پیاری دیگ.... جو اتنا عرصہ ساتھ رہنے سے ہمیں بھی بہت پیاری ہوگئی تھی۔ اب دنیا میں نہیں رہی۔ اُس کا دو دن ہوئے انتقال ہوگیا ہے۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ رونے لگے۔ پھر ہچکیاں لیتے ہوئے مزید بولے، ’’مرحومہ کافی دنوں سے بیمار تھی۔ سوچا تھا صحت یاب ہونے پر.... نہلا دھلا کر.... تمہارے گھر پہنچاؤں گا.... مگر.... (ملّا نے گہری سانس بھری).... اللہ کو یہ منظور نہ تھا اور پرسوں اسی بیماری کی حالت میں.... ہمیں روتا چھوڑ کر چل بسی۔‘‘ ’’کک.... کیا.... مطلب....‘‘ پڑوسی ہکلاتے ہوئے بولا.... ’’دَد.... دیگ تو بب.... بے جان چیز ہے.... وہ.... بھلا.... کک.... کیسے.... مرسکتی ہے.... دیکھو، مَم.... ملّا.... مجھے.... بیوقوف نن.... نہیں بناؤ!‘‘’’بیوقوف!‘‘ ملّا نصرالدین آنکھیں نکال کر غرائے، ’’تو تمہارے خیال میں مَیں جھوٹ بول رہا ہوں.... بیوقوف بنا رہا ہوں تمہیں!‘‘ ’تو اور کیا.... دیگ تو دھات کی بنی بے جان چیز ہوتی ہے.... اور مرتی تو جاندار چیزیں ہیں.... پھر دیگ کیسے مرسکتی ہے؟‘‘ پڑوسی نے غصے سے کہا۔ ’تو کیا بے جان چیزیں بچّے دے سکتی ہیں! اگر دیگ بے جان تھی تو اُس نے بچّے کو کیسے جنم دے دیا،جو تمہارے گھر اِس وقت بھی موجود ہے....‘‘ ملّا تیز لہجے میں کہہ رہے تھے،’بولو! کیا تم اِس سے انکار کرو گے کہ تمہاری دیگ نے بچہ دیا تھا اور مَیں نے اُسے تمہارے حوالے کیا تھا! بس، جو چیز بچہ دے سکتی ہے وہ مَربھی سکتی ہے تمہیں میری نیت پر شک کرنے کا کوئی حق نہیں۔‘‘ ملّا نصرالدین کی باتوں نے پڑوسی کو لاجواب کر دیا تھا۔ اُس نے بے بسی سے ملّا کو دیکھااور گردن جھکا لی۔ ملّا کے ہونٹوں پر شرارت بھری مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔