EPAPER
Updated: February 12, 2022, 1:27 PM IST | Mohammad Farooq Danish | Mumbai
مونچھوں والے بابا محلے کے ایک خوبصورت سے بنگلے میں رہتے تھے۔ ان کا نام تو کسی کو یاد نہیں لیکن لمبی لمبی مونچھوں کے سبب لوگ انہیں مونچھوں والے بابا پکارنے لگے۔ انہیں محلے میں کوئی پسند نہیں کرتا تھا۔
’تم لوگ پھر آگئے گلی ڈنڈا کھیلنے، چلو بھاگو۔‘‘ مونچھوں والے بابا نے رعب سے کہا اور ہم سب بچّے ڈر کر بھاگ گئے۔ مونچھوں والے بابا ہمارے محلے میں ایک خوبصورت سے بنگلے میں رہتے تھے۔ عمر ۶۰، ۶۵؍ کے لگ بھگ ہوگی۔ قد لمبا جسم مضبوط اور چہرے پر لمبی لمبی مونچھیں۔ پہلی مرتبہ جب چمن نے ان کو دیکھا تو ہماری جانب دیکھ کر بے اختیار کہہ اٹھا، ’’یہ تو مونچھوں والے بابا ہیں۔‘‘ یہ نام ہم سب دوستوں کو بیحد پسند آیا اور ہم نے انہیں ’مونچھوں والے بابا‘ کہنا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ یہ نام سارے محلے میں مشہور ہوگیا۔ مونچھوں والے بابا کی شخصیت بیحد پُراسرار تھی۔ وہ الگ تھلگ رہنا پسند کرتے تھے۔ ’’میرا خیال ہے وہ بہت مغرور ہیں؟‘‘ کوئی کہتا ’’میرا اندازہ ہے وہ ریٹائرڈ فوجی ہیں۔ مسلسل فوجی نوکری کرکے تھک گئے ہیں اور آرام کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ ’’ارے بھئی، نہیں ملتے تو نہ ملیں، ہماری دعوتوں میں شریک نہیں ہوتے نہ ہوں کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘ جب بھی محلے کے دو تین آدمی اکٹھے ہوتے تو مونچھوں والے بابا پر تبصرے شروع کر دیتے۔ ایک دفعہ تو غضب ہی ہوگیا۔ مائی حجن کی بیٹی کی شادی تھی۔ انہوں نے اپنے بیٹے یونس کے ہاتھ مونچھوں والے بابا کو بھی شادی کی تقریب میں شامل ہونے کے لئے دعوت نامہ بھیجا۔ یونس نے ڈرتے ڈرتے مونچھوں والے بابا کو دعوت نامہ دیا۔ پھر کہا، ’’آئیں گے نا آپ....؟‘‘ ’’سوچوں گا۔‘‘ مونچھوں والے بابا نے جواب دیا، ’’مگر یہ تو بتاؤ تم نے گلی میں گلی ڈنڈا کھیلنا بند کیا یا نہیں۔‘‘ یونس نے ہمت کرکے کہا، ’’ہمارے گلی ڈنڈا کھیلنے سے آپ کو کیا نقصان پہنچتا ہے۔ آپ تو گھر سے باہر نکلتے نہیں۔‘‘ مونچھوں والے بابا نے اس بات کا بالکل برا نہ مانا بلکہ اسے سمجھاتے ہوئے کہا، ’’مَیں تم لوگوں کو گلی ڈنڈا یا کرکٹ کھیلنے سے اس لئے منع کرتا ہوں کہ اس محلے کے لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے۔ جس کھیل سے کسی کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو تو وہ کھیل گلی محلے میں نہیں کھیلنے چاہئے۔‘‘ یونس مونچھوں والے بابا کی باتیں سن کر حیران رہ گیا۔ مائی حجن کا شمار محلہ کی معزز ترین شخصیتوں میں ہوتا تھا۔ محلہ کا ہر شخص ان کا ادب و احترام کرتا تھا۔ آج تک کبھی کسی نے ان کی بات کا انکار نہیں کیا تھا اسلئے انہیں امید ہی نہیں بلکہ یقین تھا کہ مونچھوں والے بابا ان کی تقریب میں ضرور آئیں گے۔ لیکن مونچھوں والے بابا نہ آئے۔ مائی حجن کی اس تقریب میں ان کا گھر کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے کافی دیر تک ان کا انتظار کیا۔ پھر یونس کو ان کے گھر بھیجا۔ مونچھوں والے بابا نے انکار کر دیا۔ جب یونس نے آکر مائی حجن کو بتایا تو ان کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا، ’’اس کی یہ مجال....‘‘ انہوں نے دانت پیس کر کہا اور پھر اس دن کے بعد مائی ان کی مخالف ہوگئیں اور محلے بھر میں ان کیخلاف پروپیگنڈہ شروع کر دیا۔ اب تو ہر شخص مونچھوں والے بابا کو دیکھ کر نفرت سے منہ پھیر لیتا۔ مونچھوں والے بابا کو یہ بات معلوم ہو چکی تھی کہ یہ سارا کیا دھرا مائی حجن کا ہے لیکن انہوں نے ایک بار بھی مائی حجن سے شکایت نہ کی اور نہ ان سے یہ بات پوچھی کہ وہ آخر ایسا کیوں کر رہی ہیں؟ کئی دن گزر گئے۔ مونچھوں والے بابا کی خاموشی نے محلے کے لوگوں کے حوصلے بڑھا دیئے اب انہوں نے ان پر آوازیں کسنے شروع کر دیئے۔ جب وہ کسی کے قریب سے گزرتے تو وہ آہستہ سے کہہ دیتا ’’خود غرض، مغرور انسان۔‘‘ ایک دن اچانک بجلی چلی گئی۔ رات کا وقت تھا۔ مائی حجن نے لالٹین روشن کی اور اسے چھت کے ساتھ لگے ہوئے کنڈے میں ٹانگنے لگیں تو لالٹین ان کے ہاتھ سے چھوٹ گئی نیچے کپڑوں کا ڈھیر تھا کپڑوں میں آگ لگ گئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آگ نے سارے گھر کو لپیٹ میں لے لیا۔ مائی حجن بڑی مشکل سے اپنی اور اپنے بچوں کی جان بچا کر باہر نکلیں اور چیخنے چلّانے لگیں۔ محلے کے سارے لوگ اکٹھے ہوگئے اور آگ بجھانے کی کوشش کرنے لگے لیکن مونچھوں والے بابا اس مجمع میں کہیں نظر نہ آئے۔ مائی حجن نے اونچی آواز میں انہیں برا بھلا کہنا شروع کر دیا، ’’یہ سب اس منحوس مونچھوں والے بابا کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس نے نظر لگا دی میرے ہنستے بستے گھرانے کو۔ خدا کرے اس کا بنگلہ بھی جل کر راکھ ہو جائے۔‘‘ اسی دوران فائر بریگیڈ والوں کی گاڑی آگئی لوگ حیران رہ گئے کہ اس حادثہ کا فائر بریگیڈ والوں کو کیسے علم ہوا؟ اسی اثناء میں مونچھوں والے بابا بھی وہاں نظر آگئے۔ جب آگ بجھانے والے عملہ نے آگ بجھا دی تو انہوں نے مونچھوں والے بابا سے ایک کاغذ پر دستخط کروائے اور چلے گئے۔ اس کا مطلب تھا کہ فائر بریگیڈ والوں کو مونچھوں والے بابا نے اطلاع دی تھی۔ مائی حجن نے جب مجمع میں مونچھوں والے بابا کو دیکھا تو پھر چلّا چلّا کر انہیں بددعائیں دینا شروع کر دیں لیکن مونچھوں والے بابا نے ایک دفعہ بھی مائی حجن کی طرف نہ دیکھا اور اپنے بنگلے میں چلے گئے۔ مائی حجن کے گھر میں لگی ہوئی آگ بجھ چکی تھی لیکن اب وہاں راکھ کے ڈھیر کے سوا کچھ نہ تھا۔ سب کچھ جل چکا تھا، مَیں اب بچّوں کو لے کر کہاں جاؤں.... مائی حجن سوچنے لگیں پھر انہوں نے محلے والوں کی طرف ملتجی نظروں سے دیکھا لیکن کوئی مدد کیلئے آگے نہیں آیا۔ مائی حجن اپنے بچوں کے ساتھ اکیلی رہ گئیں۔ انہوں نے بچوں کو لیا اور اپنے مکان کے ایک بے چھت کمرے میں چلی گئیں اور زمین پر بکھری راکھ پر بیٹھ گئیں۔ چند لمحوں کے بعد رات کے اندھیرے میں انہیں ایک سایہ دکھائی دیا جو آہستہ آہستہ ان کی طرف آ رہا تھا۔ وہ سہم گئیں، ’’کون ہوسکتا ہے؟‘‘ جب سایہ ان کے قریب آیا تو وہ حیران رہ گئیں۔ یہ مونچھوں والے بابا تھے، ’’کیا چاہتے ہو؟ اب تو میرا پیچھا چھوڑ دو۔‘‘ مائی حجن غصہ سے چلائیں،’’کیا ابھی کچھ اور جلانا باقی رہ گیا ہے۔‘‘ ’’مَیں آپ کو لینے آیا ہوں۔‘‘ مونچھوں والے بابا نے کہا، ’’میرا اتنا بڑا بنگلہ آخر کس دن کام آئے گا؟ جب تک آپ کا نیا مکان نہیں بن جاتا آپ میرے ساتھ میرے گھر میں رہئے۔ وہاں آپ کو ہر طرح کی سہولت حاصل ہوگی۔ جب آپ کا یہ مکان تعمیر ہو جائے تو آپ اس میں منتقل ہوجایئے گا۔‘‘ مائی حجن شدید قسم کی پریشانی میں مبتلا ہوگئیں۔ سارے محلہ میں جس شخص کو بدنام کرنے کا سہرا ان کے سر تھا، اس مشکل وقت میں وہی ان کے کام آرہا تھا۔ اور وہ لوگ جن پر انہیں ناز تھا، فخر تھا مجبوریوں کے بہانے بنا کر چلے گئے تھے۔ ’’یہ تم کہہ رہے ہو....؟‘‘ مائی حجن نے شرمندگی سے کہا۔ ’’ہاں مائی، حجن، یہ مَیں کہہ رہا ہوں۔‘‘ مونچھوں والے بابا نے کہا، ’’خوشی کے موقع پر تو سب شریک ہو جاتے ہیں لیکن انسان وہ ہے جو دکھوں میں کام آئے۔‘‘ مائی حجن کل تک جسے برا اور بہت گھٹیا سمجھ رہی تھی اب وہ انہیں بے حد عظیم لگ رہا تھا وہ بچوں کے ساتھ خاموشی سے مونچھوں والے بابا کے گھر کی طرف چل پڑیں۔