EPAPER
Updated: December 21, 2021, 12:59 PM IST | Agency | Washington/Beijing
چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دیا جس کی سفارتی غلط فہمیاں مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ بیجنگ کسی بھی تصادم کی صورت میں واشنگٹن کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہے۔ امریکہ نے گزشتہ دنوںچینی اور امریکی فوجیوں کے مذاکرات کروائے تو دوسری طرف چین کے خلاف دفاعی بجٹ منظور کروایا
چین اور امریکہ کے درمیان جاری چپقلش کبھی جنگ کی طرف تو کبھی مذاکرات کی جانب رخ کر رہی ہے۔ ایک طرف جہاں امریکہ چین کےساتھ جنگ اور مذاکرات دونوں طرح کی تیاریاں کر رہا ہے توچین نے بھی دونوں طرح سے تیار ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے کہا ہے کہ’’ ہم امریکہ کے ساتھ جنگ سے ڈرتے نہیں ہیں تاہم وہ مذاکرات پر آمادہ ہو تو ہم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘‘ یاد رہے کہ وانگ یی کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب حال ہی میں امریکہ کی جانب سے متواتر چینی حکام اور کمپنیوں پر ژنجیانگ میں ایغور مسلمانوں کے خلاف مظالم کی پاداش میں پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
اطلاع کے مطابق چین کے وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ ’’دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی میں رکاوٹ کا ذمہ دار امریکہ ہے۔ دراصل امریکہ کی سفارتی غلط فہمیاں مختلف مسائل پیدا کر رہی ہیں ۔‘‘ وانگ یی نےواضح طور پر کہا کہ’’ ہم امریکہ کے ساتھ کسی بھی تصادم سے نہیں ڈرتے، اگر ایسا ہوا تو بھرپور طریقے سے جنگ کریں گے البتہ امریکہ باہمی طور پر فائدہ مند مذاکرات کرتا ہے تو خطے میں پائیدار امن کیلئے مذاکرات اور دیگر تعاون کیلئے تیار ہیں۔‘‘ واضح رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی کی فضا میں کافی عرصے بعد ایک ایسا بیان سامنے آیا ہے جس میں مذاکرات کی بات کی گئی ہو تاہم چینی وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں یہ واضح نہیں کیاکہ آیا امریکہ نے کسی بھی سطح پر انہیں مذاکرات کی پیشکش کی ہے نہیں؟ یا پھر چین خود اس سمت میں پیش رفت کا ارادہ رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان حال ہی میں ویڈیو کانفرنس پر گفتگو ہوئی تھی مگر اس میں دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت کے بجائے مزید کھٹاس پیدا ہو گئی تھی ۔ جو بائیڈن نے بحیرہ شمالی چین میں بیجنگ کی فوجی سرگرمیوں اور ایغور مسلمانوں کے معاملے پر چین کو تنبیہ کی تھی جسے شی جن پنگ نے مسترد کر دیا تھا۔ اس کے بعد دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کے حکام اور کمپنیوں پر پابندی عائد کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔
امریکہ کی جنگ اور مذاکرات دونوں کی تیاری
دوسری طرف امریکہ چین کے ساتھ جنگ اور مذاکرات دونوں طرح کی تیاریاںکر رہا ہے۔ حال ہی میں چینی اور امریکی فوجی حکام کے درمیان ورچوئل میٹنگ ہوئی جس میں امریکہ کے انڈوپیسفک کمانڈ، نیوی اور ایئر فورس تینوں شعبوں سے تعلق رکھنے والے فوجی حکام نے شرکت کی جبکہ چین کے پیوپلس لبریشن آرمی سے وابستہ اہم عہدیداروں نے چین کی نمائندگی کی۔ دونوں جانب سے ایشیا پیسفک کے سمندروں میں فوجیوںکو محفوظ رکھنے کے طریقوں پر گفتگو کی گئی۔ اس سے ایسا لگ رہا تھا کہ دونوں دوست ممالک ہیں اور ایک دوسرے کے فوجیوں کے تحفظ کیلئے فکر مند ہیں۔ یہ مذاکرات گزشتہ ہفتے منگل سے جمعرات تک یعنی تین روز جاری رہے۔ انڈیا پیسفک کمانڈ کے سربراہ نے ایک بیان جاری کرکے کہا تھا کہ دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان اس طرح کے مذاکرات ۱۹۹۸ء سے ہو رہے ہیں ۔ اس کا مقصد خطے میں خطرات کو کم کرنا اور سمندر میں مختلف آپریشن کے دوران فوجی اہلکاروں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ چین نے اس گفتگو پر کوئی خصوصی بیان نہیں جاری کیا ہے۔
مگر دوسری طرف امریکہ نے کانگریس میں ایک دفاعی بل بھی منظور کروایا ہے جس میں چین سے متعلق کئی اہم اقدامات کا تذکرہ ہے۔ مذکورہ بل کی رو سے کانگریس نے ۷۷۰؍ ارب ڈالر کا دفاعی بجٹ منظور کیا ہے جسے شمالی بحیرہ چین میں چینی فوج کی سرگرمیوں پر قدغن لگانے اور ژنجیانگ میں ایغور مسلمانوں پر مظالم کو روکنے کے علاوہ تائیوان کے تحفظ کیلئے اسے امداد پہنچانے پر خرچ کیا جائے گا۔ ساتھ ہی ایوان میں تائیوان کے ساتھ اظہار یکجہتی کی قرار داد بھی منظور کی گئی جو یقینی طور پر چین کو برہم کرنے کیلئے کافی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ ہر وہ ممکن اقدام کرتا ہے جو اسے کسی ملک کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کے سبب کرنا پڑتا ہے۔ جو بائیڈن کی کوشش ہے کہ وہ چین کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے بعض معاملات کو حل کریں حالانکہ اب تک اس کے کوئی آثار نظر نہیں آئے ہیں۔ ساتھ ہی وہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی تصادم کی صورت میں ان کی فوج چین کا مقابلہ کرنے کیلئے پوری طرح تیار ہو۔