EPAPER
Updated: February 02, 2022, 2:04 PM IST | Monika Agarwal | Mumbai
ہر وقت تنقید کرنے اور ڈانٹتے رہنے سے بچہ ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایسے بچے نہ صرف پڑھائی میں کمزور بلکہ کھیلوں میں بھی پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ہر وقت انہیں ناکامی کا خوف رہتا ہے اور پریشانی میں رہنا ان کا معمول بن جاتا ہے۔ احساسِ کمتری اور بے سکونی ان کا مقدر بن جاتی ہے
والدین بچوں پر بے جا تنقید اورڈانٹ ڈپٹ نہ کریں کیونکہ ہر وقت ڈانٹنے سے بچے اس کے عادی ہو جاتے ہیں۔ بے جا تنقید بچوں کی معصوم ذہنیت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور ان کی شخصیت کی تعمیر پر اثرانداز ہوتی ہے۔ بچے کے مزاج کو دیکھ کر ہی والدین یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ اس بچے کی تربیت کس طرح کی جائے۔ عام طور پر پیار و محبّت سے بچوں کی تربیت کرنا انتہائی مؤثر ہے۔ بعض بچے بڑے حساس اور نازک ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں کو بالکل نہ ڈانٹا جائے کیونکہ ایسے بچے ڈانٹ کو برداشت نہیں کر سکتے۔ اس سے ان کی صحت اور مزاج پر برا اثر پڑتا ہے۔ ہر وقت تنقید کرنے اور ڈانٹتے رہنے سے بچہ ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایسے بچے نہ صرف پڑھائی میں کمزور بلکہ کھیلوں میں بھی پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ہر وقت انہیں ناکامی کا خوف رہتا ہے اور پریشانی میں رہنا ان کا معمول بن جاتا ہے۔ احساسِ کمتری اور بے سکونی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ والدین بچوں کے سامنے لڑائی جھگڑے اور مسائل پر بات چیت کرنے سے اجتناب کریں۔ جو والدین بچوں کو اپنے اشاروں پر چلانے کے لئے مار پیٹ کرتے ہیں اور ہر وقت ناراض ہو کر ڈانٹتے رہتے ہیں ،ان کو سمجھ لینا چاہئے کہ بچے مار پیٹ سے سدھرنے کے بجائے اور زیادہ باغی ہو جاتے ہیں۔ بچے کی غلطی پر اسے دوسروں کے سامنے مت ٹوکیے بلکہ تنہائی میں احسن انداز میں سمجھایئے۔ دوسروں کے سامنے ڈانٹنے یا مارنے سے بچے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں لہٰذا اپنے بچے کے مزاج کو سمجھتے ہوئے درست نہج پر اس کی پرورش کیجئے۔ بچوں کو ہر ڈانٹتے رہنے کے سبب ان پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہاں چند منفی اثرات کا ذکر کیا جا رہا ہے:
اعتماد کمزور پڑ جاتا ہے : ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کے سبب بچّوں کا اعتماد کمزور ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو کسی قابل نہیں سمجھتے۔ بچے میں خود اعتمادی پیدا کرنا ضروری ہے۔ دراصل بچہ اپنے والدین کی آنکھوں میں خود کو دیکھتا ہے۔ اگر بچے کی زیادہ سے زیادہ تعریف و توصیف کی جائے گی تو اس کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا اور یوں اس کی ذہنی صلاحیتوں کی بہتر انداز میں نشوونما ہوسکے گی۔
بچہ ذہنی دباؤ محسوس کرتا ہے : بچے کو بہت زیادہ ڈانٹنے ڈپٹنے، ڈرانے دھمکانے یا اس کی دوسرے بچوں کے سامنے تذلیل کرنے سے گریزکریں، خواہ وہ بار بار غلطی کیوں نہ کرے۔ بار بار کی ڈانٹ ڈپٹ سے بچے کی نفسیات پر منفی اثر پڑتا ہے۔ دوسرے بچوں کے سامنے اپنے بچے کو نفسیاتی طورپر گرانے کی کوشش نہ کریں بلکہ دوسروں کے سامنے بھی اپنے بچے کی تعریف کریں۔
بچے ضدی ہو جاتے ہیں: جب والدین بچّوں ہمیشہ ڈانٹتے رہتے ہیں تو بچّہ ضدی ہو جاتا ہے۔ وہ یہ سوچتا ہے کہ مَیں کوئی غلطی نہیں بھی کرتا ہوں تب بھی امّی یا ابّا مجھے ڈانٹتے ہیں۔ یہ سوچ کر وہ اپنی من مانی کرنے لگتا ہے۔ والدین کو چاہئے کہ وہ بچّے کے ساتھ نرمی سے بات کریں۔ اگر کوئی غلطی سرزد ہوگئی ہے تو پیار سے اسے سمجھایئے۔ ڈانٹ سے زیادہ نرم لہجہ اثر کرتا ہے۔ نرم انداز میں کہی گئی بات کو بچّے جلدی سمجھتے ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں۔ بچّوں کی شخصیت میں نکھار پیدا کرنے کے لئے ان باتوں پر عمل کریں:
بچے کی ایسی خوبیوں کو تلاش کریں جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ اس کی آواز اور بات چیت کے انداز کو بہتر بنانے پر توجہ دیں۔ بچے کو گھر میں ایسا ماحول فراہم کریں کہ وہ اسکول یا دیگر مقامات پر بھی پُراعتماد رہے۔
بچے کی ذہانت سے زیادہ اس پر کام کا بوجھ نہ ڈالیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کام کے بوجھ تلے دب کر بچہ ناکام اور مایوسی کا شکار ہوجائے۔ ز بچّوں کی تعلیم سے متعلق کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت ان کی رائے ضرور معلوم کرلیں۔
جن چیزوں میں بچے کی صلاحیتیں محدود ہیں، ان کو بہتر بنانے میں ہمہ وقت اس کی مدد جاری رکھیں۔ بچے کے تدریسی عمل مثلاً پڑھائی لکھائی میں اس کی مدد کیجئے۔ ز بچے کے پسندیدہ اور مثبت مشاغل میں اس کی مدد اور رہنمائی کیجئے تاکہ دوسرے بچوں کے درمیان رہتے ہوئے اس میں خود اعتمادی کا احساس پھلتا پھولتا رہے۔
بچوں کی اچھی تربیت بیٹھے بٹھائے نہیں ہو جاتی۔ آپ کو پہلے سے طے کرنا چاہئے کہ آپ اُن کی تعلیم وتربیت کیسے کریں گے۔ تربیت کا ایک اہم پہلو اِصلاح بھی ہے لیکن اِصلاح کرنے کا مطلب صرف ڈانٹنا یا سزا دینا ہی نہیں۔ اِس میں بچوں کو یہ سمجھانا بھی شامل ہے کہ گھر میں فلاں اصول کیوں بنایا گیا ہے۔ اِس طرح وہ اچھے اور بُرے میں اِمتیاز کرنا سیکھیں گے۔