EPAPER
Updated: January 05, 2022, 1:49 PM IST
| Agency
اب سے بیس پچیس سال پہلے جب یہ آبادیاتی تجزیہ سامنے آیا تھا کہ ملک کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہوگا تب اس اطلاع یا انکشاف کو نعمت غیر مترقبہ سمجھا جارہا تھا کہ اس ’’آبادیاتی اثاثہ‘‘ (ڈیموگرافک ڈویڈنڈ) کی وجہ سے ملک کی معیشت کو قابل قدر رفتار ملے گی اور ہمارا شمار دُنیا کی بڑی معیشتوں میں ہوگا۔ اب سے بیس پچیس سال پہلے جب یہ آبادیاتی تجزیہ سامنے آیا تھا کہ ملک کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہوگا تب اس اطلاع یا انکشاف کو نعمت غیر مترقبہ سمجھا جارہا تھا کہ اس ’’آبادیاتی اثاثہ‘‘ (ڈیموگرافک ڈویڈنڈ) کی وجہ سے ملک کی معیشت کو قابل قدر رفتار ملے گی اور ہمارا شمار دُنیا کی بڑی معیشتوں میں ہوگا۔ اُس دور میں کسی نے بھی سوچا نہ ہوگا کہ ہم اتنی بڑی دولت سے فائدہ اُٹھانے میں بُری طرح ناکام ہوں گے۔ آج جو صورت حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ملک کی آبادی میں ۶۲ء۵؍ فیصد لوگ کام کرنے کی عمر (۱۵؍ سے ۵۹؍ سا ل) میں ہیں۔ اگر معیشت کو ڈانواڈول نہ ہونے دیا گیا ہوتا تو آج عمر کے اس دورانیہ کے لوگوں کے پاس بہتر سے بہتر روزگار ہوتا۔ اس صورت میں یہ لوگ معیشت کو نئی سمتوں سے روشناس کراتے اور رفتارو توانائی بہم پہنچاتے مگر ایسا نہیں ہوا۔ گزشتہ دو سال تو کووڈ کی وباء کی نذر ہوگئے مگر اس کے پہلے سے معیشت ، سمت و رفتار سے بیگانہ ہے۔ کسی بھی ملک میں روزگار کے مواقع اُس وقت برقرار رہتے ہیں اور ان کے ساتھ نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں جب معاشی سرگرمیاں جوش و خروش کے ساتھ جاری رہتے ہوئے روز افزوں ہوتی ہیں۔ ہم نے آبادیاتی اثاثہ پر فخر تو کیا مگر اس کے تقاضوں کو پورا کرنے میں تساہلی برتی۔ ممکن ہے اس طرز عمل کی وجہ حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی بھی ہو۔ جب انسان یا ادارہ یا ملک خود کو برتر و بہتر مان لیتے ہیں تو ان میں اصلاح کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ شاید ہم بھی خود کو ورکنگ ایج کی سب سے بڑی آبادی کے طور پر دیکھ کر خوش ہوئے اور اس خوشی کو خود پر اتنا طاری کرلیا کہ اس کے تقاضوں کو فراموش کردیا۔ اس کا نتیجہ ہے کہ کام کرنے والے ہاتھ تو ہیں کام نہیں ہے۔آج بے روزگاری کی وجہ سے پورا ملک کراہ رہا ہے بالخصوص خواتین کیلئے روزگار کے مواقع کم ہوئے ہیں جبکہ دیگر ملکوں بالخصوص بنگلہ دیش نے اپنی معاشی ترقی کی بنیاد میں خواتین کی شمولیت کا فارمولہ رکھا تھا۔ اسی لئے، معاشی طور پر ڈھاکہ کامیاب ہے اور ہم اس کی جانب حیرت انگیز نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس نے ۲۰۰۳ء سے ۲۰۱۶ء کے درمیان روزگار میں خواتین کی شمولیت کو ۱۰؍ فیصد سے ۳۶؍ فیصد تک پہنچا دیا جبکہ ہم گھسٹتے رہ گئے۔ جولائی تا ستمبر ۲۰۲۰ء کی سہ ماہی کے اختتام پر ہندوستانی روزگار مارکیٹ میں خواتین کی حصہ داری ۱۶ء۱؍ فیصد تھی۔ کہاں یہ ۱۶؍ فیصد اور کہاں بنگلہ دیش کا ۳۶؍ فیصد۔ ہمارے ہاں کی ۱۶؍ فیصد حصہ داری دُنیا کی بڑی معیشتوں میں سب سے کم ہے۔ مقام ِ افسوس ہے کہ ہم نے خود تو کسی انقلابی تبدیلی کی راہ ہموار نہیں کی، دوسروں سے کچھ سیکھا بھی نہیں۔ اب دوسروں کی پیش رفتوں پر دم بخود ہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ستم ظریفی دیکھئے کہ اُن لوگوں کی تعداد گھٹ رہی ہے جو بے روزگار ہیں مگر حصول روزگار کیلئے کوشاں نہیں ہیں۔ نومبر۲۰۲۰ء میں ایسے لوگوں کی تعداد ۲۷ء۴؍ ملین تھی۔ کیا یہ لوگ خودروزگار سے وابستہ (سیلف اِمپلائڈ) ہوگئے یا روزگار کے حصول میں مسلسل ناکامی کی وجہ سے مایوس ہوگئے؟ حقیقت کیا ہے اس کا پتہ لگانا حکومت کی ایسی ذمہ داری ہے جس سے چشم پوشی نہیں کی جانی چاہئے۔ یہ بڑا خلافِ معمول رجحان ہے جو معاشی مبصرین کیلئے نیا نہیں مگر اس سے حکومت کی ناکامی سے عوام کی محرومی اور اس محرومی سے پیدا شدہ مایوسی پر روشنی پڑتی ہے۔ اس سے قبل کہ یہ آبادی مزید بڑھے، چند اہم پالیسی فیصلے بہت ضروری ہیں ؟