Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیا چین ہماری زمین کبھی چھوڑے گا؟

Updated: March 09, 2021, 11:16 AM IST | Hasan Kamal

ستمبر میں جب برف باری شروع ہوتی تھی تو دونوں فوجیں اپنے اپنے مورچوں سے پیچھے ہٹ جایا کرتی تھیں ۔ لیکن چین فوج ایل اے سی کی اپنی بیلٹ میں سڑکیں اور پل بناتی رہی۔ ہندوستان نے بھی کچھ تعمیری سرگرمیاں شروع کیں ، لیکن چین اس معاملہ میں بہت تیز رفتاری سے آگے رہا۔

Ladakh Standoff - Pic : INN
لداخ اسٹینڈ آف ۔ تصویر ۔ تصویر : آئی این این

کیا چین لائن آف ایکچوئیل کنٹرول ( ای اے سی) پر ان تمام مقامات سے ہٹ جائے گا، جن کے بارے میں ہردو ممالک کے اعلیٰ سطحی فوجی افسران کے مابین دسویں رائونڈ کی بات چت کے بعد ہونے والے سمجھوتہ سے ہماری حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ ایسا ۴۸؍ گھنٹے کے بعد ضرور ہو جائے گا۔ مذکورہ سمجھوتے کو ۴۸؍ گھنٹے نہیں تین ہفتے بیت چکے ہیں۔ سوائے اس کے کہ چین نے پینگانگ سو پہاڑی چوٹی یا فنگر سے کچھ ٹینک ہٹالئے ہیں اور ایک ٹریننگ کیمپ اٹھا لیا ہے، چینی فوج ہراس جگہ اب بھی موجود ہے جہاں دسویں رائونڈ کی بات چیت کے خاتمہ سے پہلے موجود تھی۔
  پروین سواہنی چینی فوج کی سرگرمیوں کا بھی ایک مدّت سے مطالعہ کر رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین یہ علاقے، جن میں کیلاش پربت بھی شامل ہے، مقدس مان سروور جھیل بھی شامل ہے، اب کبھی واپس نہیں کرے گا۔ بات چیت کے رائونڈ پر رائونڈ ہوتے رہیں گے، لیکن ہر رائونڈ کا نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ثابت ہوتا رہے گا۔ انہوں نے اس کی وجہ یا یوں کہئے کہ پوری کہانی بھی بتائی ہے۔ ان کے مطابق ۱۹۵۹ء میں اس وقت کے چینی وزیراعظم چو این لائی نے اس وقت کے ہندوستانی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو ایک مکتوب بھیجا تھا۔ یہاں چند باتیں ہم آپ کو بتانا چاہیں گے۔ ہندوستان ۱۹۴۷ء میں آزاد ہوا تھا جب کہ چین کو آزادی دو سال بعد یعنی ۱۹۴۹ ءمیں نصیب ہوئی تھی۔ دوسرے یہ کہ چو این لائی کا شمار دنیا کے بڑے لیڈروں میں ضرور ہوتا تھا لیکن اس وقت پنڈت نہرو بہت بڑے لیڈر مانے جاتے تھے۔ 
 بہر حال اس مکتوب میں چو این لائی نے یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ دونوں ممالک پر برطانوی سامراج کا تسلط تھا، اس لئے اس حکومت نے سرحدوں کا تعین تاریخ کے کسی گہرے مطالعہ کے بغیر بالکل من مانے ڈھنگ سے کر دیا تھا۔ اس لئے اب ضرورت ہے کہ ہم دونوں ممالک تاریخ کی روشنی میں سرحدوں کا تعین کریں۔ انہوں نے بتایا کہ در صل تاریخی اعتبار سے کیلاش پروت سے لے کر سکّم تک کا تمام علاقہ بشمول اقصائے چن اور لداخ ،   صدیوں تک چین کی سرحدوں کے اندر کا علاقہ رہاہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی دوستی، مفاہمت اور تعاون کی ضرورت ہے، اس لئے ہمیں یہ معاملات طے کر لینا چاہئے۔ مبینہ طور پر پنڈت نہرو نے اس مکتوب کا کوئی جواب نہیں دیا۔ بس چو این لائی کو دورۂ ہندوستان کی دعوت ضرور دے دی۔ ۱۹۶۰ ءمیں چو این لائی ہندوستان آئے اور مذکورہ موضوعات پر بات چیت بھی کی۔ نہرو نے ان کے مطالبات ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد چینی فوج نے اقصائے چن پر قبضہ کر لیا۔ پنڈت نہرو اس وقت سری لنکا کے دورے پر تھے۔ خبر سن کر انہوں نے نامہ نگاروں سے کہا کہ جس علاقہ پر چینی فوج نے قبضہ کیا ہے، وہاں تو گھاس کا ایک تنکا بھی نہیں اُگتا۔ انہوں نے کہا کہ پھر بھی ہم نے اپنی فوجوں سے کہا ہے کہ چینی افواج کو وہاں سے نکال باہر کریں۔ اس کے بعدجو ہوا وہ اب ہسٹری ہے۔ ۱۹۶۲ ءمیں چینی فوج نے حملہ کر دیا۔ ہندوستانی فوج پسپا ہوئی۔ چینی فوج کیلاش، ارونا چل پردیش اور لدا خ میں داخل ہو گئی۔  بعد میں چینی فوج نے یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کر دیا ۔
 ۱۹۹۳ء میں نرسمہا رائو سرکار نے تنازع کو ختم کرنے کیلئےایک سنجیدہ کوشش کی۔ دونوں ملکوں کے وفود نئی دہلی میں ملے۔ ہندوستان نے اپنے نقطۂ نظر سے سرحدوں کے تعین کا ایک نقشہ بھی بنایا اور اسے چین کے سامنے پیش کر دیا۔ چینیوں نے بڑی چالاکی سے یہ تجویز پیش کی کہ سرحدوں کے تعین کا معاملہ ایک ایسا عمل ہے جو ایک ملاقات میں پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچایاجا سکتا۔ اس لئے فی الحال یہ معاہدہ کر لیا جائے کہ دونوں ملکوں کی جو فوجیں سرحدوں پر آمنے سامنے ہیں، وہ کسی بھی جھڑپ کے دوران اسلحہ نہیں استعمال کریں گی یعنی ایک دوسرے پر فائرنگ نہیں کریں گی۔ کوئی قضیہ ہوا تو دونوں ملکوں کے فوجی افسران اسے مل بیٹھ کر اور بات چیت کر کے طے کر لیا کریں گے۔ چینی وفد نے کہا کہ اس طرح فوجی ٹکرائو کا خطرہ بھی نہیں رہے گا اور دونوں ممالک کے دفاعی بجٹ بھی حد سے آگے نہیں بڑھیں گے۔ نرسمہا رائو اور اس وقت کے فوجی افسران چین کی اس چال کو نہیں سمجھ پائے۔ انہوں نے سرحدوں کا تعین کئے بغیر اس معاہدہ پر دستخط کر دیئے۔ اس کے بعد ایل اے سی پر دونوں بے اسلحہ فوجیں مارچ سے اگست تک گشت لگانے لگیں۔ ستمبر میں جب برف باری شروع ہوتی تھی تو دونوں فوجیں اپنے اپنے مورچوں سے پیچھے ہٹ جایا کرتی تھیں ۔ لیکن چینی فوج ایل اے سی کی اپنی بیلٹ میں سڑکیں اور پل بناتی رہی۔ ہندوستان نے بھی کچھ تعمیراتی سرگرمیاں شروع کیں، لیکن چین اس معاملہ میں بہت تیز رفتاری سے آگے رہا۔ اس بیچ مارچ ۲۰۲۰ ء میں ہندوستانی فوجوں نے مورچوں پر پہنچنے میں کچھ دیر کر دی۔ چینی فوج نے اس کا فائدہ اٹھایا اور فنگر چار سے فنگر آٹھ تک سارا ہندوستانی علاقہ ایک بھی گولی چلائے بغیر اپنے قبضے میں لے لیا۔ مودی سرکار اور پالتو میڈیا کے سوا ساری دنیا یہ سمجھ رہی ہے کہ چین نے اپنا مقصد پورا کر لیا ہے اور وہ ان علاقوں کو اب کبھی واپس نہیں دے گا۔چین کو پیچھے نہ ہٹنے اور ہماری زمین واپس نہ کرنے کا ایک جواز بھی مل گیا ہے۔ یہ جواز چین کو ہمارے سابق آرمی چیف وی کے سنگھ نے، جو مودی سرکار کے ایک اہم وزیر بھی ہیں،فراہم کیا ہے۔ انہوں نے کچھ دنوں پہلے بیان دیا تھا کہ چین نے تو ہمارے علاقوں میں بس دس بار دراندازی کی ہے، ہم تو چین کے علاقوں میں پچاس بار در اندازی کر چکے ہیں۔ چین نے ان کے بیان کو دنیا کے سامنے یہ کہہ کر پیش کیا ہے کہ ہندوستان کے سابق آرمی چیف خود اعتراف کر رہے ہیں کہ ہندوستان نے جن علاقوں میں پچاسوں بار در اندازی کی تھی، وہ چین کے ہی علاقے تھے۔ تو پھر چین اب اپنے علاقوں کو کیسے واپس دے سکتا ہے۔  چین کیلئے لداخ کی طرف پیش قدمی کا کوئی جواز موجود نہیں تھا۔ ۵ ؍اگست ۲۰۲۰ء کو اس کا جواز مل گیا۔ جیسے ہی ۳۷۰؍ کے خاتمہ کا بل پاس ہوا اور یہ اعلان کیا گیا کہ لداخ کو یونین ٹریٹری بنا دیا گیا ہے، چین کا رد عمل فوری طور پرسامنے آیا۔ چین نے کہا کہ ہندوستان کو لداخ کی ہئیت بدلنے کا کوئی حق نہیں ہے، کیونکہ لداخ چین کا ہے۔چین اب ہم پر ہر طرح کادبائو ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ خفیہ ایجنسیوں نے حکومت اور فوج کو خبر دار کیا ہے کہ مارچ میں چین کسی بڑی فوجی کارروائی کی تیاری کر رہا ہے۔مبصرین اور ماہرین کی رائے ہے کہ ایل اے سی پر حالات کو قابو میں رکھنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ نریندر مودی اور شی جن پنگ میں راست بات چیت ہو۔ دیکھئے یہ کب ہوتی ہے۔

china ladakh Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK