EPAPER
Updated: November 13, 2021, 2:50 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
گزشتہ ہفتے (۹؍ نومبر کو) یوم اقبال منایا گیا جو یوم اُردو کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔ وہ چاہے یوم اقبال ہو یا یوم اردو، اصل چیز یہ ہے کہ اہل اُردو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اپنی زبان کے ورثے کو بچانے کی فکر کریں، یہی اُردو سے سچی محبت کا تقاضا ہے۔
حفیظ (جالندھری) نے اپنے بارے میں کہا تھا کہ تشکیل و تکمیل فن میں اُن کا جو بھی حصہ ہے وہ ’’نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں‘‘ مگر یہاں جو ’’قصہ‘‘ نقل ہونے جارہا ہے وہ ایک صدی سے زائد عرصے کا ہے۔ علامہ اقبال، ڈاکٹر سر محمد اقبال، شاعر مشرق اقبال، حکیم الامت اقبال اور ’ہمارے اقبال‘ کی شاعری، عالمی اُردو معاشرہ میں گزشتہ ایک صدی کے دوران پیدا ہونے والی ہر نسل کے سر پر سایہ فگن رہی ہے۔ اس شاعری کو سنتے اور پڑھتے ہوئے نسلیں پروان چڑھی ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب اُردو معاشرہ کےبہتیرے افراد اقبال کی متعدد نظموں اور سیکڑوں اشعار کے علاوہ اُن کے فارسی کلام کے بھی حافظ ہوتے تھے۔ اس کے بعد آنے والی نسلوں میں اقبال کی شاعری سے جذباتی تعلق قائم تو رہا مگر ویسا نہیں۔ گزشتہ تین چار دہائیوں میں، گوکہ معاشرہ نے اقبال کو فراموش نہیں کیا مگر اُن کی شاعری اور فکر سے جذباتی تعلق جو کم ہوچکا تھا، مزید کم ہوگیا۔ دورِ حاضر کے معاشرہ میں اقبال موجود تو ہیں مگر کتنے ہیں یہ سوال غور طلب ہے۔ آئیے اس وراثت کا ہلکا سا جائزہ لیتے چلیں: اگر صرف شعریات کی بات کریں تو اقبال کی بارہ تصانیف ہیں۔ آٹھ فارسی اور چار اُردو۔ فارسی تصانیف (اسرار خودی، رموز بے خودی، پیام مشرق، پس چہ باید کرد اے اقوام مشرق ، زبور عجم وغیرہم) سے اُردو معاشرہ کے افراد کی اکثریت واقف نہیں ہے۔ یہ کتابیں شاید ہی کسی کے پاس موجود ہوں۔ اس لئے بارہ تصانیف میں سے آٹھ کو آپ منہا کردیجئے۔ رہ گئیں چار (جو اُن کی اُردو شاعری پر مشتمل ہیں)۔ ان میں سے بھی بال جبریل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز بیشتر اہل اُردو کے پاس نہیں ہیں۔
بچ گئی ایک تصنیف، بانگ درا، جو بہتوں کے پاس محفوظ ہے۔ اس کا فیصد نکالیں توبارہ میں سے آٹھ کے منہا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ۶۶ء۶۶؍ فیصد آپ کے پاس سے چلا گیا۔ رہ گیا ۳۳ء۳۳ (یا ۳۳ء۳۴؍ فیصد، بقدر چار تصانیف ِ اُردو)۔ اس میں سے بھی تین کتابیںہم میں سے اکثر کے پاس نہیں ہیں۔صرف ایک ہے ، یعنی اب معاشرہ کے افراد کے پاس ۸ء۳۳؍ فیصد کے بقدر کلام اقبال یا اقبال کی وراثت موجود ہے۔ بانگ درا کی شکل میں باقی رہ جانے والی اس ایک تصنیف کے بارے میں بھی اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ ایسے لوگ تو شاید ڈھونڈے سے بھی نہ ملیں جنہیں پوری کی پوری نظمیں یاد ہوں۔ چند ایک نظموں کے بعض بند ضرور یاد ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بیس پچیس وہ اشعار یاد ہیں جو تقریروں اور خطبات میں یا مضامین و مقالات میں بطور دلیل استعمال کئے جاتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ۸ء۳۳؍ فیصد کا بھی بیشتر حصہ ذہن و دل میں محفوظ نہیں ہے۔
اگر آپ اس حساب سود زیاں سے اتفاق کرتے ہوں تو دیکھ لیجئے کہ اس میں سود کم اور زیاں زیادہ ہے۔ ہمارے پاس وراثت ِ اقبال کا محض کچھ فیصد ہے جبکہ ہمارا دعویٰ تو مکمل وراثت پر ہے کہ اقبال ہمارے شاعر ہیں، نباض قوم ہیں، سرمایہ ٔ ملت ہیں، فلسفی ہیں، ایسا ذہن ہیں جو صدیوں میں پیدا ہوتا ہے اور جس پر ہمیں فخر ہے۔ اس وراثت کا جتنا حصہ (۸ء۳۳؍ فیصد) ہم محفوظ رکھ پائے اُس میں بھی مسئلہ ہے۔ متعدد تلمیحات، استعارات، تشبیہات، اصطلاحات اور الفاظ سے نہ تو ہماری واقفیت ہے نہ ہی ہمیں اُن کے جاننے اور سمجھنے کی فکر اور فرصت ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ اقبال کی نظر میں شاعری برائے شاعری نہیں بلکہ بہترین اور اعلیٰ مقاصد کے بروئے کار لائے جانے کا موثر ذریعہ تھی۔ اسی لئے اُنہوں نے اپنی شاعری کو قرآنی تعلیمات کے عام کئے جانے کیلئے وقف کردیا تھا۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ قرآن حکیم اُن کی فکر کا سرچشمہ ہے۔ یہ فکر جب اُن کی اعلیٰ و ارفع تخلیقی قوتوں سے ہم آہنگ ہوتی تو وہ شعر تخلیق ہوتے جن میں محاسن ِشعری سے زیادہ اہمیت اُس پیغام کی ہوتی جسے عوام تک پہنچانا مقصود تھا۔ اقبال کے دوست، کرم فرما اور مدیر مخزن شیخ عبدالقادر نے اُن کے تخلیقی عمل کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’جب شعر کہنے کی طرف مائل ہوتے تو غضب کی آمد ہوتی تھی۔ ایک ایک نشست میں بے شمار شعر ہوجاتے تھے۔ اُن کے دوست اور بعض طالب علم جو پاس ہوتے پنسل کاغذ لے کر لکھتے جاتے اور وہ اپنی دھن میں کہتے جاتے۔ میں نے اُنہیں کبھی کاغذ قلم لے کر فکر سخن کرتے نہیں دیکھا۔ موزوں الفاظ کا ایک دریا بہتا یا ایک چشمہ اُبلتا معلوم ہوتا تھا۔ ایک خاص کیفیت، رقت کی، عموماً اُن پر طاری ہوتی تھی۔‘‘ جن خوش قسمت لوگوں نے اقبال کے تخلیقی عمل کو دیکھا اُن سب نے یہی بتایا کہ جب اُن کے تخلیقی سوتے پھوٹتے تو اُن میں کلام پاک کے مطالعے سے حاصل شدہ علم کی موجیں شامل ہوتیں، اس دوران کہیں کہیں ازسرنو استفادہ کی ضرورت محسوس ہوتی تو کلام پاک کا نسخہ منگواتے جس کیلئے اُن کے خادم میاں علی بخش حاضر رہا کرتے تھے۔ یاد رہے کہ میاں علی بخش نے کسی اور کتاب کا ذکر نہیں کیا کہ کبھی اُنہوں نے کسی انگریز مصنف سے رجوع کیا ہو یا کسی اور زبان کے کسی دانشور سے استفادہ ضروری سمجھا ہو۔ اُنہوں نے اپنی بھرپور وابستگی صرف اور صرف قرآن حکیم سے رکھی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اقبال شاعری کی اپنی غیر معمولی صلاحیت سے ایک بڑا کام لینا چاہتے تھے اور وہی کام اُنہوں نے لیا۔ اقبال نے عوام الناس کو یہ یاد دلانے کے ساتھ ساتھ کہ تمہارا پیدا کرنے والا تم سے کیا چاہتا ہے اور اُس کے اس مطالبے کو تم کس طرح بھولے ہوئے ہو، ایک خفتہ اور تباہی کی جانب تیزی سی گامزن قوم کو جھنجھوڑنے، جگانے، مقصد تخلیق انسانی کو سمجھانے اور ان میں جوش عمل پیدا کرنے کی حتی الوسع کوشش کی۔ گزشتہ ہفتے یوم اقبال (اور یوم اُردو) منایا گیا، ہر سال منایا جاتا ہے مگر فکر اقبال کی شمع کیسے روشن کی جائے اس پر کوئی ٹھوس طریقۂ عمل سامنے نہیں آیا۔ جن معدودے چند اداروں نے ’’اقبال فہمی‘‘ کے نام سے تربیتی نظم قائم کررکھا ہے وہ قابل ستائش ہیں مگر ایسا نظم شہر بہ شہر ہو تب کہیں جاکر وراثت ِ اقبال کے ساتھ انصاف ہوسکتا ہے۔ انفرادی سطح پر بھی کلام اقبال کے مطالعہ اور اس کی تلمیحات اور استعارات کو سمجھنے کی کوشش ہونی چاہئے کیونکہ اقبال کا کلام عمل پر اُبھارتا اور ’’ہاتھ پر ہاتھ دھرے‘‘ رہنے کے خلاف متنبہ کرتا ہے ۔