EPAPER
Updated: December 10, 2021, 1:19 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai
یہ کون لوگ ہیں اور انہوں نے بھارت سے اپنا رشتہ کیوں توڑ دیا ہے یہ ایک سوال ہے۔
بھارت میں مختلف قوموں اور نسلوں کے لوگوں کا مسلسل آنا اور یہیں بس کر یہاں کی مٹی کا حصہ بن جانا ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ نئے آنے والوں میں مذہب کی بنیاد پر کسی کا استقبال کرنا اور کسی کو یہاں آنے سے روک دینا بھارتی تہذیب اور مزاج کا شیوہ کبھی نہیں رہا اس لئے گزشتہ دنوں داخلی امور کے وزیر مملکت نتیا رائے نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لوک سبھا میں جب بتایا کہ گزشتہ پانچ برسوں میں کل ۴۱۷۷؍ لوگوں کو بھارت کی شہریت عطا کی گئی اور اس مدت میں جن لوگوں نے بھارتی شہریت حاصل کرنے کی درخواستیں دیں ان کی تعداد ۱۰۶۴۵؍ ہے تو بالکل حیرت نہیں ہوئی لیکن وزیر موصوف کے اس بیان یا انکشاف سے شدید حیرت ہوئی کہ اس مدت میں یعنی گزشتہ پانچ برسوں میں چھ لاکھ سے زیادہ بھارتی شہریوں نے بھارتی شہریت چھوڑ دی۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مختلف وجوہ سے بھارت کے لوگوں کا مختلف ملکوں میں بسنا الگ معاملہ ہے اور چھ لاکھ بھارتیوں کا بھارتی شہریت کو چھوڑ دینا الگ معاملہ ہے۔ بھارت کے ایسے لاکھوں لوگ ہیں جو بھارت سے دور کسی ملک میں جا بسے ہیں، ان کا رہن سہن تک بدل گیا ہے مگر وہ بھارتی شہری ہیں اور بھارتی شہری ہی کہلاتے ہیں۔ ان کی بھارت سے محبت اور ملک سے بچھڑ جانے کی اذیت نے ان احساسات کو جنم دیا ہے جن پر مہاجرت کی شاعری اور افسانہ نگاری کی بنیاد رکھی ہوئی ہے۔ ان میں سے چند ہی ایسے ہوں گے جنہوں نے بھارتی عوام اور بھارتی تہذیب پر تنقید کی ہوگی مثلاً Midnight Children میں بھارتی تہذیب اور طرزِ زندگی کا مذاق اُڑایا گیا تھا اور اس سے پہلے اور بعد میں بھی اِکا دُکا ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں جو بھارت سے محبت کرنے والوں کو گراں گزرتے ہیں ورنہ مختلف وجوہ سے نقل مکانی کرنے یا نقل مکانی پر مجبور کردیئے جانے والوں کا عمومی احساس وہی ہوتا ہے جس کا اظہار اختر شیرانی نے اپنی نظم ’’او دیس سے آنے والے بتا‘‘ میں کیا ہے۔ مسائل و مشکلات میں مبتلا ہوکر زمین کے کسی خاص حصے سے یا خوشحالی و قدر دانی کیلئے کسی خاص حصے کی طرف ہجرت کرنے والے بھی اپنی مٹی، اپنے لوگ سے محبت کرتے اور ان کی یادوں کو دل سے لگائے رہتے ہیں۔ تقسیم ہوجانے والوں میں بھی تقسیم نہ ہونے کی خواہش ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تقسیم کے دوران یا تقسیم کے بعد ابتدئی دنوں میں جن لوگوں نے نقل مکانی کی ان پر خوف طاری تھا یا وہ ایک بہتر مستقبل کا خواب دیکھ رہے تھے۔ بعد میں جن لوگوں نے یورپ اور عرب ممالک، افریقی ممالک یا برما میں اپنی بستیاں بسائیں ان کا مقصد بھی تعلیم یا معاشی آسودگی کا حصول تھا۔ نقل مکانی کے اس عمل میں کبھی کبھی سیاسی وجوہ سے مذہب کا نام لیا تو گیا مگر مذہب ان کی نقل مکانی کا حقیقی محرک نہیں تھا۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ بھارت میں ۲۰۱۹ء میں شہریت ترمیمی بل کو قانون کا درجہ دیا گیا اور پڑوسی ملکوں، بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے بھارت آنے والے ہندوئوں، پارسیوں، عیسائیوں، سکھوں اور بودھوں کو یہاں پانچ سال گزار لینے کی شرط کے ساتھ بھارتی شہریت عطا کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ اس شہریت ترمیمی قانون کا ۱۲؍ دسمبر ۲۰۱۹ء کو نوٹیفکیشن جاری ہوگیا تھا اور ۱۰؍ جنوری ۲۰۲۰ء کو یہ نافذ بھی کردیا گیا تھا مگر وزارت داخلہ کی اطلاع کے مطابق اس کا ضابطہ ابھی تک طے نہیں ہوا ہے اس لئے عملاً یہ نافذ نہیں ہوا ہے۔ وزارت داخلہ کے حوالے سے یہ اطلاع بھی موصول ہوئی ہے کہ شہریت ترمیمی قانون سے متاثر ہونے والے تمام لوگ شہریت حاصل کرنے کیلئے درخواست دے سکتے ہیں۔ اس اطلاع میں دو باتیں قابل توجہ ہیں یعنی حال ہی میں بھارت آنے اور یہاں بس جانے والا شخص بھی شہریت کی درخواست دے سکتا ہے اور وہ بھی جس کی پیدائش بلکہ جس کے باپ دادا کی پیدائش بھی بھارت میں ہوئی ہو، بھارت سے جس کا تعلق ناقابل انکار ہو مگر جس نے دستاویزات نہ سنبھالی ہوں۔ ایک ملک میں پیدا ہونے اور کسی دوسرے ملک میں بس جانے اور اس ملک کی شہریت اختیار کرلینے والے تو تقریباً ہر ملک میں ہیں مگر پانچ پڑوسی ملکوں کے ایک خاص مذہب کے لوگوں کو بھارتی شہریت دے دینا بھارت میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ بھارت میں پیدا ہونے والا ایک مسلمان اگر کسی مسلم ملک میں شہریت حاصل کرنے کی کوشش کرے تو وہ نہیں دی جاسکتی کہ قانون مخل ہوتا ہے۔ ایسا قانون صرف اسرائیل میں ہے کہ یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والا ہر شخص چاہے دنیا کے کسی ملک میں پیدا ہوا ہو اپنی شہریت کے اعتبار سے اسرائیلی بھی ہے۔ یعنی شہریت کے اعتبار سے ہر یہودی بیک وقت ہندوستانی، ایرانی، روسی، فرانسیسی، امریکی، عرب اور فلسطینی بھی ہے اور اسرائیلی بھی۔ ہندوستان میں جو شہریت ترمیمی قانون پاس ہوا ہے اس کے مطابق تین پڑوسی ملک کے پانچ مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہندوستان میں پانچ سال گزار لینے کے بعد یہاں کی شہریت کی درخواست دے سکتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ مذہب کی بنیاد پر تفریق ہے۔ دوسری طرف پانچ سال میں چھ لاکھ کے قریب بھارتیوں نے بھارتی شہریت چھوڑ دی ہے۔ یہ کون لوگ ہیں اور انہوں نے بھارت سے اپنا رشتہ کیوں توڑ دیا ہے یہ ایک سوال ہے۔ پوری تفصیل ہمارے پیش نظر نہیں ہے اس کے باوجود اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارتی شہریت ترک کرنے والوں میں اکثریت ان کی ہوگی جن کے مذہب اور بھارتی شہریت میں گہرا تعلق ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے مگر جو زیادہ کمانے اور ترقی کے بہتر مواقع حاصل کرنے کیلئے اپنے وطن کو چھوڑنے میں قباحت محسوس نہیں کرتے۔ اس کا مطلب ہے کہ بھارت میں شہریت ترمیمی قانون بنائے جانے سے پہلے ہی شہریت کا ایک خاص مفہوم متعین کیا جاچکا تھا۔ یہ مفہوم جس میں وطن سے محبت کے دعوے تو بہت کئے جاتے ہیں مگر نفع حاصل کرنے کیلئے وطن چھوڑنے میں تامل نہیں کیا جاتا بابا صاحب امبیڈکر کے ہندوستانیت یا بھارتی شہریت کے تصور سے قطعی مختلف ہے۔ انہوں نے دستور میں INDIA کا متبادل ہندوستان نہیں بھارت کیا ہے اور لفظ بھارت سے کسی خاص مذہب سے خصوصی تعلق کی نفی ہوتی ہے۔