EPAPER
Updated: December 11, 2021, 2:08 PM IST
| Shahid Latif
یہ قحط الرجال کا دور ہے چنانچہ جن لوگوں نے سماج اور معاشرہ پر اپنا نقش قائم کیا، اسے بہت کچھ دیا، اُن کے انتقال کی خبرتڑپا دیتی ہے۔ وِنود دُوا ایسی ہی شخصیت تھے۔ اُنہوں نے بڑی بھرپور اور کامیاب زندگی گزاری مگر زمین سے جڑا رہ کر۔ اُن کا جانا گنگا جمنی تہذیب کے ایک علمبردار کا رخصت ہونا ہے۔
لگتا نہیں تھا کہ ونود دوا اتنی جلدی چلے جائیں گے۔ زندگی کو اپنی شرطوں پر اور پورے رچاؤ کے ساتھ جینے والے ونود دوا، جو چھوٹی چھوٹی باتوں سے لطف ِزندگی کشید کرتے تھے، ایسے وقت میں گئے ہیں جب ساری دُنیا لطف ِزندگی کو جنس بازار سمجھتی ہے کہ بازار جائیں گے اور خرید لائیں گے۔ اس کم فہم دُنیا کو علم نہیں کہ لطف ِ ِزندگی محض آسودہ کامیوں میں نہیں، ان محرومیوں میں بھی چھپا ہوتا ہے جو زندگی کی معنویت کو دوبالا کرتی ہیں۔ ونود دوا نے ایسی ہی بھری پُری زندگی گزاری جو ناکامیوں اور محرومیوں سے شروع ہوئی اور ہنستے کھیلتے ایسے منطقے میں داخل ہوئی جہاں، اوروں کے برخلاف، اُن کیلئے یہ طے کرنا مشکل نہیں تھا کہ ملازمت کرنی ہے یا نہیں کرنی ہے، پیشہ جاتی زندگی میں دخل در معقولات کی گنجائش رکھنی ہے یا نہیں رکھنی ہے۔ ونود دوا اپنی روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے کبھی غافل نہیں ہوئے، لوگوں سے ملنا، گفتگو کرنا اور اُن کی ہلکی پھلکی باتوں میں دلچسپی لینا اُن کا مشغلہ تھا۔ اسی لئے، چار پہیہ گاڑی ہونے کے باوجود میٹرو ٹرین میں سفر کرتے تھے اور اسٹیشن سے دفتر یا اسٹیشن سے گھر تک کی مسافت پیدل طے کرتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے ’’ذائقہ انڈیا کا‘‘ جیسا مقبول ٹی وی شو شروع کیا تھا جس کے لئے اُنہوں نے الگ الگ ریاستوں کا دورہ کیا، الگ الگ شہروں کے ریستورانوں میں گئے، وہاں کے مخصوص پکوانوں کی تفصیل جانی، اجزائے ترکیبی معلوم کی، ریستوراں کے مالک سے، باورچی سے اور گاہکوں سے گفتگو کی تاکہ الگ الگ پکوانوں کی جزئیات کو اپنے ناظرین تک پہنچا سکیں۔ یہ اپنی نوعیت کا انوکھا شو تھا جو ونود دُوا ہی کرسکتے تھے کیونکہ اُنہیں غذائی تنوع سے خاص دلچسپی تھی۔
بالائی سطور میں یہ بات آچکی ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں خوشیاں تلاش کرتے اور خوش ہوتے تھے۔ عام طور پر، زندگی کے اس زاویئے کو لوگ فراموش کردیتے ہیں اور مواقع گنوا دیتے ہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ خوش ہونا سیکھا جائے ورنہ خوشیاں سامنے دھری ہوں تب بھی انسان خوش نہیں رہ سکتا۔ ونود دُوا لوگوں سے مل کر خوش ہوتے تھے، اُن کے ساتھ چائے پی کر خوش ہوتے تھے اور اُن سے باتیں کرکے مسرور ہوتے تھے۔ ایسا انسان کبھی تنہا نہیں رہتا۔
’’سی ووٹر‘‘ کے بانی یشونت دیشمکھ نے اپنے تعزیتی مضمون (مطبوعہ ’’دی کوئنٹ‘‘) میں ونود دُوا کے ساتھ اپنے تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے چند ایسے واقعات بیان کئے ہیں جو سیدھے دل میں اُتر جاتے ہیں۔ ایک واقعہ کچھ اس طرح ہے: ’ زی ٹی وی کے لانچ کے وقت عملے کے لوگوں کی تصویریں کھینچی جانی تھیں۔ تمام ساتھی جمع ہوئے لیکن مَیں نہیں گیا۔ ونود جی نے مجھے نہ پاکر حیرت کا اظہار کیا اور جب مَیں دکھائی دیا تو بلایا کہ تم یہاں کیوں نہیں ہو؟ اس پر مَیں نے سرگوشی کے انداز میں اُنہیں بتایا کہ میرے پاس قاعدے کے کپڑے نہیں ہیں۔ یہ سن کر ونود جی مجھے ایک کمرے میں لے گئے، اپنا سوٹ کیس کھولا اور اپنی قمیص نکال کر دی کہ اسے پہن لو، ڈھیلی ہوگی مگر ہم نیچے سے پن لگا لیں گے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا جیکٹ اور ٹائی بھی مجھے دی۔ یہی لباس پہن کر میں نے فوٹو شوٹ میں حصہ لیا۔‘‘ یہ ہے چھوٹی چھوٹی باتوں سے خوش ہونا۔ ونود دُوا یقیناً ایک جونیئر ساتھی کو اپنے کپڑے دے کرخوش ہوئے ہوں گے۔
یشونت دیشمکھ نے ایک اور واقعہ اسی موقع کا بیان کیا ہے کہ ’’فوٹو سیشن کے بعدتمام لوگوں کو ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں دوپہر کے کھانے کیلئے جانا تھا۔سب لوگ ہوٹل پہنچے اور پھر کھانے کی میز پر۔ ونود جی سب کا ساتھ دیتے رہے مگر کچھ کھا نہیں رہے تھے۔ میں نے کہا کیا آپ کیلئے پلیٹ لے آؤں؟ اُنہوں نے دھیمی آواز میں کہا چھوڑ دو (کھانا مت کھاؤ)۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ ایک گھنٹے بعد ہم اُن کے ایک دوست کی کار میں بیٹھ کر باہر نکلے، کم و بیش ۲۰؍ منٹ کے سفر کے بعد ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں تنگ گلیاں تھیں۔ کار سے اُترنے کے بعد ہم ایک گلی سے گزرے اور ایک خوانچہ فروش کے پاس پہنچے۔ یہ وڈا پاؤ کی دکان تھی۔ ونود جی اتنی دور صرف اس لئے آئے تھے کہ اس مخدوش علاقے میں وڈا پاؤ کا لطف لیں۔ یہاں ایک اور بات مشاہدہ میں آئی کہ ونود جی اور وڈا پاؤ والا اس طرح گفتگو کررہے تھے جیسے پرانے شناسا ہوں۔‘‘ مضمون نگار کا کہنا ہے کہ پانچ ستارہ ہوٹل کو چھوڑ کر کسی خوانچہ فروش کے پاس کھڑے رہ کر کھانا کھانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔ وہ اکثر ایسا کرتے تھے۔
ونود دُوا ناراض ہونے اور شکایت کرنے والے صحافیوں میں سے نہیں تھے اس لئے کبھی موجودہ میڈیا کا شکوہ اس طرح نہیں کیا کہ جس سے کبیدہ خاطری جھلکتی ہو۔ اتنا ضرور کہا کہ میڈیا سرکاری اور درباری ہوگیا ہے، مگر اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا۔ یہی ایک مہذب انسان کی پہچان ہوتی ہے، وہ کسی کی برائی کرکے دل کی بھڑاس نہیں نکالتا بلکہ ہنس بول کر، دوستوں سے مل کر، گیت سن کر، گیت گا کر اور لمحوں کے خالی پن میں تخیل کے شگوفے کھلا کر خاطرخواہ اطمینان حاصل کرلیتا ہے جو اس کی گزر بسر کیلئے کافی ہوتا ہے۔ ونود دوا ایسے ہی تھے۔ انہیں کبھی یہ زعم نہیں رہا کہ وہ ہندوستان میں برقی صحافت کے بانی ہیں یا ملک کے اولین میزبان۔ آج کی برقی صحافت کے جتنے میزبان ہیں ان میں سے اکثر وہ ہیں جنہوں نے ونود دُوا سے سیکھا۔ اگر ایسا استاد نہ ملا ہوتا تو میزبانی کے شوق میں وہ خود کو آرکیسٹرا کی میزبانی کرتا ہوا پاتے، برقی صحافت سے وابستگی کا پروقار منصب انہیں نہ ملتا۔یہ الگ بات ہے کہ ان اینکروں نے ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر بھی ایسی ہی میزبانی کی جیسی آرکیسٹرا کی ہوتی ہے۔ اس پر ونود دُوا کو افسوس تو رہا ہوگا مگر حرف شکایت زبان پر نہیں آیا۔
یہ مضمون نگار اُن سے کبھی نہیں ملا مگر جتنا کچھ اُن کے بارے میں جانا ہے، اُن کے ٹی وی شوز جتنی دلچسپی سے دیکھے ہیں اور آخری چند برسوں میں اُن کے ویڈیوز کا خصوصی سلسلہ ’’جن گن من کی بات‘‘ سے جتنا کچھ حاصل کیا ہے، اُس سے ایسا لگتا ہے کہ اُنہیں سمجھنے کیلئے اتنا کافی ہے۔’’ جن گن من کی بات‘‘ میں اُن کی راست گفتگو، حکومت ِ وقت سے چبھتے ہوئے سوالات پوچھنے کی جرأت، پیشکش کا سلیقہ و انداز اور زبان کا معیار اُنہی کا حصہ تھا۔یہ سب وہی کرسکتے تھے۔ اس پر اُن کی نستعلیق شخصیت سونے پر سہاگہ جیسی تھی۔ جن معدودے چند شخصیات کو گنگا جمنی تہذیب کی تابندہ مثال کہا جاسکتا ہے، ونود دُوا اُن میں سے ایک تھے۔