Inquilab Logo Happiest Places to Work

یہ کیسا اظہارِ لاتعلقی؟

Updated: February 09, 2022, 1:43 PM IST

ایس نے دھرم سنسد میں ہونے والی اشتعال انگیزی سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

 آر ایس ایس نے دھرم سنسد میں ہونے والی اشتعال انگیزی سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ دنوں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے ہری دوار، رائے پور اور الہ آباد کی دھرم سنسدمیں ہونے والی اشتعال انگیزی کو موضوع بناتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی شخص ایسے بیانات سے اتفاق نہیں کرے گا۔  یہ اظہارِ لاتعلقی کوئی نئی بات نہیں ہے۔پلہ جھاڑ لینا آر ایس ایس کی پُرانی روایت ہے۔اگر اسے ایسی اشتعال انگیزی سے اتفاق نہیں ہے تو اس کی جانب سے دو تین واجبی سوالات کا جواب آنا چاہئے:  پہلا سوال یہ کہ جو خطرناک بیانات دھرم سنسدوں میں دیئے گئے، اُن کے تعلق سے یہ وضاحت اتنی تاخیر سے کیوں کی گئی؟ اس پر اپنا موقف تو اسی دن یا دوسرے دن ظاہر کیا جاسکتا تھا! دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر آر ایس ایس اس اشتعال انگیزی سے اتفاق نہیں کرتا تو اس نے مذمت کیوں نہیں کی؟ قتل عام کی دھمکی یا قتل عام پر اُکسانے کی کوشش کوئی معمولی واقعہ تو نہیں تھا کہ نظر انداز کردیا جاتا۔ یہ معاملہ ملک تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ دیگر ملکوں میں بھی اس کی گونج سنائی دی حتیٰ کہ غیر ملکی میڈیا نے بھی اس کا نوٹس لیا۔ تب کیا وجہ تھی کہ آر ایس ایس خاموش رہا؟  تیسرا سوال یہ ہے کہ ماضی میں آر ایس ایس نے اُن بیانات کی حوصلہ شکنی کیوں نہیں کی جو اِس کی اپنی ذیلی تنظیموں کے لیڈروں نے دیئے تھے؟ اگر آر ایس ایس نے اس کا نوٹس لیا ہوتا تو دریدہ دہن لیڈروں کی پہلے ہی تنبیہ ہوجاتی اور وہ دوبارہ، سہ بارہ اور پھر بار بار ایسی جرأت نہ کرتے۔  معلوم ہوا کہ دیگر خصوصیات کے علاوہ اظہار لاتعلقی بھی آر ایس ایس کی اہم خصوصیت ہے۔ اس نے گاندھی جی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے سے بھی لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ناتھورام کسی زمانے میں بھلے ہی آر ایس ایس کا رکن رہا ہو گا مگر جب اس نے گاندھی جی کا قتل کیا تب وہ اس تنظیم سے وابستہ نہیں تھا۔ حقائق اس وضاحت کی نفی کرتے ہیں۔ چند برس پہلے خود ناتھو رام کے پسماندگان نے توثیق کی تھی کہ اُس کا تعلق آر ایس ایس سے تھا، اس نے کبھی اس تنظیم سے علاحدگی اختیار نہیں کی۔ ۸؍ ستمبر ۲۰۱۶ء کے اکنامک ٹائمس میں ناتھو رام اور ویر ساورکر کے پسماندگان میں سے ایک ستیکی ساورکر کے بیان کا یہ مفہوم تھا کہ ناتھو رام آر ایس ایس کا پُرجوش رکن تھا، یہ الگ بات کہ ایک عرصے بعد اُس میں بے دلی پیدا ہوگئی تھی۔کئی کتابوں میں بھی ایسی ہی توثیق ملتی ہے۔  لاتعلقی کی پچاسوں مثالیں مل جائینگی۔ ملک کے اکثر فرقہ وارانہ فسادات کیلئے قائم کی جانے والی جانچ کمیٹیوں نے آر ایس ایس اور اس کے کیڈر پر گرفت کی مگر اس نے کبھی تسلیم نہیں کیا کہ جو لوگ ملوث تھے وہ اس کے کیڈر سے تعلق رکھتے تھے۔مذکورہ بالا دھرم سنسدوں کی تقریریں، نفرتی تقاریر  کے زمرے میں آتی ہیں۔ ان سے پہلے سیکڑوں نفرتی تقاریر اور بیانات آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں کے لیڈروں نے دیئے ہیں۔ ایک طویل فہرست ہے پریوار کے لوگوں کی۔ ان کی بھی حوصلہ شکنی نہیں کی گئی۔ اگر موہن بھاگوت کا دعویٰ ہے کہ ہندوتوا کو ماننے والا کوئی بھی شخص اس سے اتفاق نہیں کریگا تو ماضی میں، خاموش رہ کرایسے بیانات سے اتفاق کیوں کیا گیا؟ بی جے پی لیڈران بھی بہتیرے بیانات پر خاموش رہے۔ کئی بیانات تو ان کی موجودگی میں دیئے گئے مگر انہوں نے  اُف تک نہیں کی۔ اب آر ایس ایس یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ بی جے پی سے اس کا تعلق نہیں؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK