Inquilab Logo Happiest Places to Work

ننگا نہائے کیا اور نچوڑے کیا

Updated: February 05, 2022, 2:23 PM IST | Shamim Tariq

کچھ رقم دے کر سرٹیفکیٹ حاصل کرنے اور روپیہ دے کر یا جھوٹے سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر ملازمت حاصل کرنے والے ہر ادارے اور ہر شعبے میں ہوسکتے ہیں۔ ان کا کسی بھی محکمے میں برسرکار ہونا بے ایمانوں کی حوصلہ افزائی کرنے یا بدعنوانی سے چشم پوشی کرنے جیسا ہے اور پیشۂ تدریس میں ان لوگوں کا اپنے لئے جگہ بنانا تو تعلیم کے تقدس اور طلبہ کے مستقبل کو پامال کرنے جیسا ہے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

ایک زمانہ تھا کہ کچھ لوگ اس لئے استاذ اور ماہر فن سمجھ لئے جاتے تھے کہ وہ کسی استاذ یا ماہر فن کے بیٹے ہیں مگر دوسری طرف ایسے لوگ بھی تھے جو طویل عمر سعادتمند شاگرد کی حیثیت سے گزار دینے اور استاذ ہونے کے مرتبے پر پہنچ جانے کے باوجود تاعمر خود کو شاگرد ہی سمجھتے تھے۔ انگریزوں کے دور میں تعلیم کا جو نصاب رائج ہوا اور جب مسابقتی امتحانات منعقد کئے جانے لگے تو معاشرے کے اس حصے سے تعلق رکھنے والے طلباء کی تقرریاں بھی اعلیٰ عہدوں پر کی جانے لگیں جن کے بارے میں یکطرفہ فیصلہ سنا دیا گیا تھا کہ وہ صرف گالیاں سننے اور خدمت کرنے کیلئے پیدا ہوئے ہیں۔ مذہبی حلقوں میں البتہ عقیدت اور خاندانی و برادرانہ تعصب کی بنیاد پر عظمتیں بانٹی جاتی رہیں۔ ایک سے ایک جاہل اس کو شش میں رہے کہ چونکہ وہ باعزت خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے تمام لوگ ان کو ’ دنڈوت‘ کرتے رہیں۔ اس قسم کی ذہنی بیماریوں کے باوجود ہندوستان کے آزاد ہونے کے بعد تک عدلیہ اور تدریس کو باعزت پیشہ سمجھا جاتا رہا لیکن پھر دوسری قسم کی خبریں موصول ہونے لگیں۔ پیشۂ تدریس میں بدعنوانی سے متعلق میں ایک مضمون پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔ اسی معاملہ کی تفتیش و تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ جنوری ۲۰۲۰ء میں اساتذہ کا اہلیتی امتحان ۲۰۱۹ء (TET) منعقد ہوا۔ یہ امتحان ہوتا ہی اس لئے ہے کہ جو اہل ہیں ان ہی کو اساتذہ کی پوسٹ دی جائے۔ مگر ہوا یہ کہ اس امتحان میں ۷۸۰۰؍ امیدوار یا امتحان میں شریک ہونے والے فیل ہوگئے یا اس سے کم نمبر حاصل کئے جو منتخب کئے جانے کیلئے مطلوب تھے لیکن بعد میں سب کو یا ۷۸۰۰؍ میں سے بعض کو فی کس ۵۰؍ ہزار سے ۲؍ لاکھ تک کی رقم لے کر پاس ہونے کا سرٹیفکیٹ دے دیا گیا۔ پولیس تحقیق کررہی ہے کہ ۷۸۰۰؍ میں سے کتنوں کو اس امتحان کی بنیاد پر ملازمت دی گئی جس امتحان میں وہ فیل ہوگئے تھے اور پاس ہونے کا سرٹیفکیٹ پانے کے مستحق نہیں تھے لیکن ’’سب سے بڑا روپیہ‘‘ کا کرشمہ کہ ان کو سرٹیفکیٹ دے دیا گیا۔ ۱۷؍ دسمبر ۲۰۲۱ء کو امتحان کروانے اور اس میں پاس ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے والے محکمے کے دو اعلیٰ افسران گرفتار ہوئے تھے۔ پونے کے پولیس کمشنر کا کہنا ہے کہ مزید گرفتاریاں ہوسکتی ہیں۔ ابھی تفتیش کی جاری ہے مگر یہ سراغ لگ چکا ہے کہ OMR پر کچھ امیدواروں کے نمبر تبدیل کئے گئے تھے اور بعض کو براہِ راست سرٹیفکیٹ جاری کردیئے گئے تھے۔ یہ نہایت شرمناک انکشافات ہیں۔ طلبہ کو پاس کروانے یا ان سے کچھ رقم وصول کرکے ان کے نمبر بڑھوانے والے تو عام لوگوں کی نگاہوں سے بھی چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کچھ رقم دے کر سرٹیفکیٹ حاصل کرنے اور روپیہ دے کر یا جھوٹے سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر ملازمت حاصل کرنے والے ہر ادارے اور ہر شعبے میں ہوسکتے ہیں۔ ان کا کسی بھی محکمے میں برسرکار ہونا بے ایمانوں کی حوصلہ افزائی کرنے یا بدعنوانی سے چشم پوشی کرنے جیسا ہے اور پیشۂ تدریس میں ان لوگوں کا اپنے لئے جگہ بنانا تو تعلیم کے تقدس اور طلبہ کے مستقبل کو پامال کرنے جیسا ہے۔ اساتذہ بھی انسان ہوتے ہیں، ان سے بھی خطائیں سرزد ہوتی ہیں ان کو معاف کیا جانا ضروری ہے یعنی ’’خطائے بزرگاں گرفتن خطا است ‘‘ کے مصداق ان کی خطائوں پر ان کو معتوب کرنا بھی خطا ہے مگر ریکٹ چلا کر یا ریکٹ کا حصہ بن کر معلمی کا پیشہ اختیار کرنا اتنی بڑی خطا ہے کہ اس کو معاف کیا ہی نہیں جاسکتا۔ کہا جاتا ہے کہ علم یا تعلیم بھی جب پیشہ یا منافع بخش کاروبار بن جائے تو اپنی برکتیں برقرار نہیں رکھ پاتا۔ یہ جب ریکٹ یا نااہلوں کے روپیہ کمانے کا ذریعہ بن جائے تو وبال بن جاتا ہے۔ وبال سے نجات پانے کیلئے ضروری ہے کہ خطائوں یا غلطیوں اور جرائم سے بچنے اور پرانے جرائم اور خطائوں کے اثرات کو زائل کرنے کی تدابیر اختیار کرنے کیساتھ آئندہ یہ جرم خود نہ کرنے اور دوسروں کو نہ کرنے دینے کا عزم کیا جائے۔ یہ عزم دور دور تک نظر نہیں آتا۔ کیا اساتذہ اور کیا انتظامیہ کے لوگ سبھی یا ان میں کثیر تعداد ایسوں کی ہے جو استحصال کرنے یا استحصال ہونے دینے پر رضا مند ہیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ رشوت دے کر پاس ہونے کا سرٹیفکیٹ لینے والے بچوں کو پڑھائیں گے کیا؟ یعنی ننگا نہائے گا کیا اور نچوڑے گا کیا؟ میری یاد داشت میں ایسے اساتذہ ہیں جنہوں نے گائوں سے باہر کبھی قدم نہیں نکالے۔ تنخواہ تو کیا نذرانہ یا تحفہ قبول کرنے میں بھی سختی برتی، کسی کے سامنے جھکے بھی نہیں اور سارے گائوں کو تعلیم یافتہ نہیں تو خواندہ ضرور بنادیا۔ مگر اب؟ کافی اساتذہ حاضری لگانے کے بعد کسی وزیر، کسی سیاستداں یا کسی افسر کے دفتر یا گھر نظر آتے ہیں۔ حالانکہ اب انہیں اتنی تنخواہ ملتی ہے کہ وہ اپنا تو کیا دوسروں کا بھی گھر چلا سکتے ہیں۔ مختلف سطح پر کچھ ایسے اساتذہ ضرور ہیں جو اپنے طلبہ کی مالی مدد کرنے اور ان کے مستقبل کو سنورانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ گنے چنے اساتذہ ہمارے سر آنکھوں پر۔ یونیورسٹیوں کی سلیکشن کمیٹی میں جانے والے بعض لوگ بھی روپیہ لے کر تقرری یا ترقی دینے کے معاملے میں بہت بدنام ہیں مگر نظام کچھ ایسا ہے کہ انہیں کو بلایا جاتا ہے لیکن پونے پولیس نے ٹی ای ٹی امتحان میں گھپلا کرنے یا بدعنوانی کروانے کیلئے جس طرح مہاراشٹر اسٹیٹ کونسل آف ایگزامینشن (MSCE) کے کمشنر اور ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے مشیر کو گرفتار کیا ہے اسی طرح یونیورسٹیوں کی تقرری اور ترقی میں حصہ لینے والے بھی ایک نہ ایک دن ضرور کیفر کردار تک پہنچیں گے۔ بہرحال سرٹیفکیٹ لینے اور تقرری کا پروانہ حاصل کرنے والوں کے قانون کی گرفت میں آنے کا معاملہ بعد کا ہے، پہلا سوال تو یہ ہے کہ استاذ سمجھے جانے والے کسی شخص کا ضمیر کیسے اجازت دیتا ہے کہ وہ پڑھانے کا اہل نہ ہوکر بھی پڑھانے کی ذمہ داری قبول کرتا اور بڑی بڑی تنخواہیں حاصل کرتا ہے۔ ضرورت سب کی ہے اور ہر ضرورتمند کی مدد کرنا ہمارے سماجی فرائض میں شامل ہے مگر کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ دھوکا دے کر کچھ حاصل کرے۔ وہ تمام لوگ دھوکے باز ہیں جنہوں نے روپیہ دے کر پاس ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا اور اب بڑی تنخواہ لے کر تدریس کا ڈھونگ رچائے ہوئے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK