EPAPER
Updated: January 31, 2022, 12:02 PM IST | Bharat Jhun Jhunwala | Mumbai
آج کے حالات میںخدمات کی مفت تقسیم کے پورے تصور کو مسترد کرنے اورنقد رقم کی مفت فراہمی کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے پاس پیسہ ہو اورانہیںذہنی وجسمانی آسودگی نصیب ہو نیزوہ ان پیسوں کا استعمال اپنی ترجیحات اور اپنی ضرورتوںکےمطابق کرسکیں۔
نقد رقم کی مفت تقسیم پرپہلا اعتراض یہ کیاجاتا ہےکہ یہ اقتصادی طورپرقابل عمل اور قابل تائید نہیں ہے۔حکومت کے پاس اتنا سرمایہ ہے ہی نہیں کہ وہ عوام کی ایک بڑی تعدادمیںپ یسہ مفت تقسیم کر سکے۔یہ معاملہ درحقیقت تھوڑا مختلف نوعیت کا ہے۔حکومت کے اخراجات عام طور پر تین طریقوں سےہوتے ہیں: پہلان قدرقم کی مفت تقسیم ، دوسرا خود حکومت کی اپنی کھپت اور تیسرا حکومت کی سرمایہ کاری۔اب یہاںیہ واضح ہوگیاکہ اگرہمیں بڑی تعدادمیںعوام کو نقد پیسےمفت فراہم کرنے ہیں توہمیں یا تو خود حکومت کی کھپت کم کرنی ہوگی یا اس کی سرمایہ کاری کو محدود کرنا ہوگا ۔اگر حکومت اپنے اوپر ہونے والے اخراجات کو کم کرتی ہے تب نقد رقم کی مفت تقسیم قابل تائید ہوسکتی ہے۔ دوسری صورت میں اگرہم حکومت کی سرمایہ کاری کو محدود کرتے ہیں تونقد رقم کی مفت تقسیم قابل عمل بھی ہوسکتی ہے۔ اس موضوع پر دوسرا اعتراص یہ کیاجارہا ہے کہ پیسوں کی مفت تقسیم ٹیکس کی آمدنی کے غلط استعمال کے زمرے میں آتی ہے۔ملک میں امیرطبقے کے افراد زیادہ تر ٹیکس ادا کرتے ہیں۔اس پہلو سےدیکھا جائے توپیسوںکی مفت تقسیم کا مطلب یہ ہوگا کہ امیروں کے ٹیکس سے ہونے والی آمدنی ایک عام اورنسبتاً غریب آدمی کے کھاتے میں منتقل کی جائے گی۔ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو یہ ایک فلاحی ریاست کا معاملہ ہوگا۔ یہ اسی طرح ہےکہ آج حکومت نے کارپوریٹ اداروںکو بھی کچھ ذمہ داری دے رکھی ہے۔ کارپوریٹ اداروں کی ان ذمہ داریوں میں سے ایک یہ بھی ہےکہ انہیں اپنے منافع میں سےسماجی بہبود کے پروگراموں کیلئےبھی خرچ کرنا ہے اوراسےکارپوریٹ اداروں کی سماجی ذمہ داری کا نام دیا گیا ہے۔ اب اگر حکومت امیروں کے ٹیکس سے غریبوںکو پیسہ فراہم کرتی ہے تویہ بھی کارپوریٹ کی سماجی ذمہ داری کے ایک پروگرام کی طرح ہی ہوگا ۔ نقد کی مفت تقسیم کے سلسلےمیںایک مسئلہ یہ بھی ہےکہ یہ تقسیم نقد کی صورت میں ہی ہوتی ہے یا نقد کےعوض کوئی خدمت یا سہولت مفت فراہم کی جاتی ہے ۔کسی خدمت یا سہولت کی مفت تقسیم کے زمرے میں سبسڈی یا فرٹیلائزر کی فراہمی بھی شامل ہوسکتی ہے اور اس کے تحت انا ج کی مفت فراہمی بھی کی جاسکتی ہے۔ اب اگرحکومت اناج کی کسی مخصوص جنس پر سبسڈی فراہم کرتی ہے توہم عوام کی حوصلہ افزائی کریں گے کہ وہ وہی اناج خریدیں جس پر حکومت سبسڈی دے رہی ہے۔مثال کے طورپر ۱۹۶۰ ء میں جب ملک کو قحط سالی کی وجہ سے غذا کی قلت کا سامنا کرنا پڑاتھا تب حکومت نے کسانوںکیلئے کھاد پر سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا تھاتاکہ کسان زیادہ سے زیادہ اناج کی پیداوارکرسکیںلیکن یہ سہولت ہنگامی حالات کی مناسبت سےتھی۔اسی طرح جب حکومت تعلیم مفت فراہم کرتی ہے تواس سے عوام کی حوصلہ افزائی مقصود ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں۔مذکورہ دونوں معاملات میں عام طورپر یہ مفروضہ قائم کرلیاجاتا ہےکہ عوام بے وقوف ہیں اور انہیں یہ تک نہیں پتہ ہےکہ کن حالات میںکھا دکا استعمال ضروری ہوتا ہے اور کن حالات میں بچوں کی تعلیم ضروری ہوتی ہے۔یہ مفروضہ بہر حال صحیح نہیں ہے۔ یہ جمہوریت کےبنیادی تصورات میں سے ایک ہے کہ عوام سمجھدار ہیں اور عوام جب ملک کے وزیر اعظم کاانتخاب کرنے کے اہل ہیںتو وہ اس قابل کیوں نہیںہوں گے کہ کھا د کے استعمال اوربچوںکی تعلیم میں سے کب کس کو ترجیح اور اولیت دینی ہے ، اس کا فیصلہ کر سکیں۔ میرا احساس یہ ہےکہ ۱۹۶۰ء میں اگرحکومت کھادوںپر سبسڈی نہ بھی فراہم کرتی تب بھی کسان کھاد کی خریداری کرتے کیونکہ اس وقت کے حالات میں اناج کی پیداوار میں اضافہ کرنا کسی بھی صو رت میں کسانوں کیلئے فائدہ کا ہی سودا ہوتا ۔نقدرقم کی مفت تقسیم کے بجائےخدمات کی مفت فراہمی کے پیچھےایک وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ آخر الذکر میں بیوروکریسی کا بڑا فائدہ ہوتا ہے۔اناج پر سبسڈی یا مفت فراہمی کے نتیجے میں بیوروکریسی سے جڑے اہلکاروں کو اناج خریدنے ، اس کا ذخیرہ کرنے اوراسے اپنی سہولت کے مطابق بیچنے کا بھر پورموقع ملتا ہے۔عوامی تقسیم کا ری کے نظام کیلئے راشن کارڈ بنوانے میں بھی ان کے اپنے کچھ مفادات ہوتے ہیں اور خدمات کی مفت تقسیم در اصل ایک پردہ ہوتا ہے جس کے پیچھے بیوروکریسی یا نوکر شاہی کے ان مفادات کو تحفظ حاصل ہو رہا ہوتا ہے۔ یہ کچھ اسباب ہیںجن کی بنیاد پرخدمات یاسہولتوں کی مفت کی تقسیم کےبجائے نقد پیسوںکی مفت تقسیم کے متبادل کا انتخاب زیادہ سود مند اور کارگر معلوم ہوتا ہے۔ آج کے حالات میں خدمات کی مفت تقسیم کے پورے تصور کو مسترد کرنے اورنقد رقم کی مفت فراہمی کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے پاس پیسہ ہو اورانہیں ذہنی وجسمانی آسودگی نصیب ہو نیزوہ ان پیسوں کا استعمال اپنی ترجیحات اور اپنی ضرورتوںکےمطابق کرسکیں۔
آخر میں،ایک مثالی قدم یہی معلوم ہوتا ہےکہ مجموعی طورپر موجودہ معاشی ماڈل کو ہی تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے اور روزگار وملازمتوںکے ذرائع پیدا کرنے پر زور دیاجائے ۔اگر یہ ممکن نہیںہے تو دوسرا متبادل وہی ہے جس کا بالائی سطور میں ذکر کیاگیاہےکہ نقدرقم عوام کے ہاتھوںمیں دی جائے اورانہیں اپنی ضروریات کے مطابق خرچ کرنے کا اختیار دیاجائے۔ اس مسئلے کا تیسرا حل خدمات کی مفت فراہمی کے متبادل کی شکل میں نظر آتاہے لیکن اس میں بھی فائدہ عوام کا کم او ر بیوروکریسی کا زیادہ ہے۔اس مرتبہ انتخابات میںسیاسی پارٹیوںکو چاہئے کہ وہ لیپ ٹاپ اور سائیکلیں تقسیم کرنے کے بجائےنقدرقم عوام کے ہاتھوں میں دیں اورانہیں اس کے استعمال کی آزادی واختیار دیں۔