EPAPER
Updated: January 29, 2022, 8:31 AM IST | Shahid Latif | Mumbai
بجٹ تقریر کتنے لوگ سنتے ہیں اور بجٹ دستاویز کو کتنے لوگ پڑھتے ہیں یہ آپ ہم جانتے ہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں معاشیات کی تعلیم عام ہو۔
روز بعد بجٹ پیش کیا جائیگا۔ بجٹ کے تعلق سے ستم ظریفی یہ ہے کہ اتنی ضخیم دستاویز کے پڑھنے والے ہمیشہ بہت کم ہوتے ہیں۔ سمجھنے والے بھی شاید اُتنے ہی ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو سمجھتا ہے وہی پڑھتا ہے، جو نہ سمجھتا ہو وہ کیوں پڑھے گا۔ یہی حال بجٹ سے پہلے پیش کئے جانے والے اکنامک سروے کا ہے جو محکمہ ٔ معاشی اُمور کے ذریعہ معاشی مشیر (چیف اکنامک ایڈوائزر) کی سربراہی میں تیار کیا جاتا ہے۔ اس دستاویز کو ملک کی سب سے جامع اور ٹھوس معاشی دستاویز کہا جاسکتا ہے جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ قومی معیشت گزشتہ ایک سال میں کس حال میں رہی۔ خیر، بجٹ اس لئے بھی نہیں پڑھا جاتا (اور نہ وزیر مالیات کی بجٹ تقریر زیادہ سنی جاتی ہے) کہ اس میں آنے والے الفاظ بالخصوص اصطلاحات ، جو خاصی مشکل ہوتی ہیں، دستاویز اور اس حوالے سے تقریر کو بوجھل اور خشک بنادیتی ہے۔ تقریر میں تھوڑی بہت چاشنی گھولنے کیلئے وزرائے مالیات ماضی میں اُردو اشعار کا استعمال کرچکے ہیں۔ اس سے کتنا فائدہ ہوا یہ کہنا مشکل ہے مگر اس کا سبب وہی ہے جو بیان کیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ عوام کی اکثریت معاشی اصطلاحات سے اس قدر نابلد کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشیات کا رجحان عوام میں آج بھی اتنا ہی کم ہے جتنا کل تھا۔ وہ مہنگائی کو مہنگائی کے معنی ہی میں سمجھتے ہیں افراط زر کے معنی میں نہیں۔ یہ ہے بھی سر کی جانب سے کان پکڑنے کی کوشش۔ افراط زر کا معنی یہ نہیں کہ عوام کے پاس پیسوں کی ریل پیل ہوجائے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ کوئی شے خریدنے کیلئے زیادہ پیسے اداکرنے پڑیں۔ بہ الفاظ دگر، افراط زر پیسوں کی قدر کو کم کرتا ہے جبکہ سننے میں اس کے کچھ اور معنی سمجھ میں آتے ہیں۔ یہی سرکاری سرمایہ کاری اور سرکار کی جانب سے سرمائے کی واپسی کا حال ہے۔ سرمایہ کاری کو انویسٹمنٹ کہا جاتا ہے جبکہ سرمائے کی واپسی کو ’’ڈس انویسٹمنٹ‘‘۔ لوگ باگ یہ تو سمجھ سکتے ہیں کہ سرکار کی جانب سے سرمایہ کاری کا کیا مفہوم ہے مگر سرمائے کی واپسی نہ تو آسانی سے سمجھ میں آتی ہے نہ ہی عام آدمی اسے سمجھنے میں دلچسپی لیتا ہے۔ بجٹ تقریر سنئے تو اور بھی کئی الفاظ آپ کی سماعتوں سے ٹکرائیں گے۔ مثلاً کیپٹل ایکسپینڈیچر۔ اس کا معنی ہے حکومت کے ذریعہ ہونے والے بڑے اخراجات۔ یہ وہ خرچ ہے جو حکومت املاک، جائداد، عمارتوں، ٹیکنالوجی اور سازوسامان کی خریداری کیلئے کیا جاتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ عوام، جو کیپٹل ایکسپینڈیچر سے واقف نہیں وہ اس کے مخفف ’’کیپکس‘‘ (CapEx)سے کیسے واقف ہوسکتے ہیں؟ ایسی کئی اصطلاحات ہیں جن سے عوام اتنا ہی ناواقف ہیں جتنا کہ وہ اپنے حال سے ہوتے ہیں کہ جس کا صحیح تجزیہ اُن کے مشاغل کا حصہ کبھی نہیں رہتا۔ اسی لئے پڑھ لکھ کر ملازمت نہ پانے والا نوجوان یہ سمجھتا ہے کہ ملازمت اُس کے مقدر میں نہیں تھی جبکہ مطلوبہ صلاحیت اور قابلیت کے باوجود کسی نوجوان کا بے روزگار رہنا حکومت کے جانب سے اُس کی حق تلفی ہے۔ یہ نکتہ کتنے لوگ جانتے ہیں اور کون اس حق کو اپنا حق سمجھتا ہے؟
معاشی اصطلاحات کے ساتھ بڑی دقت یہ بھی ہے کہ تقریباً تمام اصطلاحات انگریزی میں ہوتی ہیں اور اگر انہیں آسان کرنے کی غرض سے کسی دوسری زبان میں پیش کرنا مقصود ہو تو ان کا ترجمہ ہی کیا جاتا ہے، نئی (متبادل) اصطلاح وضع نہیں کی جاتی۔ اس لئے کئی اصطلاحات جوں کی توں رواج پاجاتی ہیں مگر عوام کے علم میں نہیں آپاتیں۔ یہ اگر ایک مسئلہ ہے تو دوسرا یہ ہے کہ ہر اصطلاح ترجمہ کے ذریعہ سمجھ میں آجائے یہ ممکن نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اہل ہندی نے انفلیشن (افراط زر) کا ترجمہ کیا ’’مدرااسفتی‘‘ اور اس کی ضد ’’ڈیفلیشن کا ترجمہ کیا ’’اپس فیتی‘‘۔ عوام بے چارے نہ تو مدرااسفتی جانتے ہیں اور جاننا چاہتے ہیں نہ ہی اپس سفیتی۔ اُردو والوں کو خیر منانا چاہئے کہ اُن کے بڑوں نے جس طرح انفلیشن کو افراط زر نام دیا اسی طرح ڈفلیشن کو قلت زر کا نام دیا۔ افراط زر بھی آسانی سے سمجھ میں آجاتا ہے اورقلت زر بھی۔ مگر اُردو کی گاڑی بھی اکثر پھنس جاتی ہے۔ انگریزی میں دو اصطلاحات ہیں: فسکل اور مانیٹری۔ فسکل کو بھی ہم مالیاتی کہتے ہیں اور مانیٹری کو بھی جبکہ دونوں کا مفہوم الگ الگ ہے۔
اب اگر ایک کو مالیاتی اور دوسرے کو زری کہا جائے (جیسا کہ کتابوں میں ملتا ہے) تب بھی دونوں میں امتیاز کرنے کا مسئلہ برقرار رہتا ہے۔ اس طرح پھنستی ہے اُردو کی گاڑی۔ اُن قارئین کیلئے جو فسکل اور مانیٹری کے فرق سے واقف نہیں، اُن کیلئے عرض ہے کہ وہ مالیاتی اُمور جو ریزرو بینک کی جانب سے طے پاتے ہیں، مانیٹری کہلاتے ہیں اور جو حکومت کی جانب سے انجام پاتے ہیں اُنہیں فسکل کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب شرح سود میں تبدیلی کی جاتی ہے تو اسے ریزرو بینک کی جانب سے مانیٹری پالیسی کا حصہ کہا جاتا ہے اور جب حکومت ٹیکسوں کی شرح تبدیل کرتی ہے تو یہ فسکل پالیسی کا حصہ ہوتا ہے۔
یہ ساری دشواریاں اس لئے ہیں کہ ملک میں معاشیات کی تعلیم جس طرح اور جتنی دی جانی چاہئے، نہیں دی جاتی۔ انجینئرنگ کی تعلیم سب کیلئے ضروری نہیں۔ میڈیکل کی تعلیم بھی سب کیلئے ضروری نہیں۔ اور بھی کئی شعبہ ہائے علم ایسے ہیں جن کی بنیادی واقفیت کافی تصور کی جاسکتی ہے مگر معاشیات وہ شعبہ ہے کہ جس کی خاطرخواہ معلومات نہ ہونے سے ملک کے شہری یہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ کیا ہورہا ہے اور جو ہورہا ہے وہ ٹھیک ہے یا نہیں۔ حکومت برآمدات میں اضافہ کردے تب بھی عام آدمی بے خبر رہتا ہے اور درآمدات کو روکنے کی کوشش کرے تب بھی عام آدمی کا اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتا جبکہ یہ فیصلے اُس پر اثرا نداز ہوتے ہیں بھلے ہی براہ راست نہ ہوتے ہوں۔ معاشیات کو نہ صرف یہ کہ نچلی جماعتوں سے نصاب میں داخل کیا جانا چاہئے بلکہ نصاب درجہ بہ دجہ ایڈوانس ہوتا جائے تاکہ بورڈ امتحان تک پہنچتے پہنچتے ہر طالب علم اس قابل ہوجائے کہ بجٹ تقریر سن کر سمجھ سکے اور کبھی وہ چاہے کہ بجٹ دستاویز کا مطالعہ کرے تو وہ بھی اس کی فہم سے بالاتر نہ ہو۔