EPAPER
Updated: February 11, 2022, 2:48 PM IST
| Maulan Abullaies Islahi Nadvi
مذہب نے جن باتوں پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے وہ سب باتیں ایسی ہیں جن کا ہماری زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے اور ان کے ماننے یہ نہ ماننے سے ہماری اس دنیا کی زندگی اور اس کے معاملات پر پورا اثر پڑتا ہے ۔ قیامت یا آخرت کے الفاظ تم نے بارہا سنے ہوں گے اور ممکن ہے کہ تم اپنی ماں یا دادی کے بتانے سے یا کسی اور سے سن کر یہ بھی جانتے ہو کہ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے قیامت پر ایمان لانا ہمارے لئے ضروری ہے لیکن معلوم نہیں تم نے کبھی اس بات پر بھی غور کیا ہے یا نہیں کہ اس کے ماننے کا ہماری زندگی سے کیا تعلق ہے۔ آیا قیامت کے ماننے کا فائدہ یا غرض بس اتنی ہی ہے کہ ہمارے علم میں ایک نئی بات آجاتی ہے، یا یہ کہ اس کے ماننے کا ہماری زندگی پر بھی کچھ اثر پڑتا ہے؟اس زمانے میں لوگ عام طور سے مذہب کی باتوں پر زیادہ غور وفکر نہیں کرتے، اس لئے بہت سے لوگ اپنی ناواقفیت کی بنا پریہ سمجھتے ہیں کہ اسلام نے جن باتوں کے ماننے پر زور دیا ہے، وہ سب مان لینے کی باتیں ہیں، ان کا زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اگر تم غور کرو تو پتہ چلے گا کہ ان کا یہ سمجھنا بالکل غلط ہے۔ مذہب نے جن باتوں پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے وہ سب باتیں ایسی ہیں جن کا ہماری زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے اور ان کے ماننے یا نہ ماننے سے ہماری اس دنیا کی زندگی اور اس کے معاملات پر پورا اثر پڑتا ہے اور یہی حال اس عقیدئہ قیامت کا بھی ہے کہ اگر اس کو مان کر زندگی بسر کی جائے تو ہمارے اخلاق و معاملات اور ہماری زندگی کا رنگ ڈھنگ کچھ اور ہوگا۔ اگر اس کو کوئی تسلیم نہ کرکے زندگی گزارے تو اس کے معاملات و اخلاق کا طرز اور اندازکچھ اور ہوگا۔ آؤ کچھ دیر کے لئے اس مسئلے پر غور کریں۔ اس کے لئے سب سے پہلے ہمیں قرآن مجید ہی کو سامنے رکھنا چاہئے کیوں کہ قرآن مجید نے صرف یہی نہیں بتایا ہے کہ قیامت کو ماننا ضروری ہے اور کیوں ضروری ہے بلکہ یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس کے ماننے یا نہ ماننے سے زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے، لیکن قرآن مجید نے اس سلسلے میں جو کچھ کہا ہے وہ ایک صحبت میں کسی طرح بیان نہیں کیا جاسکتا، اس لئے قرآن مجید کی رو سے عقیدئہ قیامت کے جو اثرات انسان کی زندگی پر پڑتے ہیں، ان کا صرف ایک پہلو پیش کیا جارہا ہے، وہ یہ کہ انسان کے نیک و بد ہونے میں اس عقیدے کو کیا دخل ہے۔اس بارے میں قرآن مجید نے جو کچھ کہا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس دنیا میں نیکی اور بھلائی کا دار و مدار صرف دو باتوں پر ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آدمی یہ سمجھے کہ اس دنیا میں اس کی حیثیت یہ نہیں ہے کہ وہ خود بخود پیدا ہوا ہے، اور وہ اس کے لئے آزاد ہے کہ جو اس کے جی میں آئے کرے، جس کو جی چاہے مارے، جس کا مال چاہے ہڑپ کرے اور جس پر جی چاہے ظلم کر بیٹھے۔ بلکہ اس کی حیثیت یہ ہے کہ اس کا ایک پیدا کرنے والا ہے، اور اس کے پیدا کرنے کی کوئی نہ کوئی غرض و غایت ہے اور اس کے پیدا کرنے والے نے اسے آزادی تو یقیناً دے دی ہے کہ ایک خاص دائرے سے جو کچھ چاہے کرسکتا ہے لیکن یہ نہیں ہے کہ انسان جو کچھ کرتا ہے اسے وہ پسند بھی کرتا ہے بلکہ انسان کو بری یا بھلی باتیں بتادی ہیں اور وہ اچھی باتوں کو پسند اور بری باتوں کو ناپسند کرتا ہے۔ اور ہر انسان سے اس بات کی توقع رکھتا ہے کہ وہ اس کی ٹھہرائی ہوئی پسندیدہ باتوں کو اختیار کرے اور ناپسندیدہ باتوں سے بچے۔ قرآن کہتا ہے کہ جو لوگ یہ سمجھ کر زندگی گزارتے ہیں اور ہر کام میں اللہ کی خوشی یا ناخوشی کو پیشِ نظر رکھتے ہیں ان کا حال دنیا میں ان لوگوںسے مختلف ہوتا ہے جو خودکو کسی کا پیدا کردہ نہیں سمجھتے یا خود اپنے نفس کواپنا بادشاہ سمجھتے ہیں، اور جو جی میں آتا ہے، کرتے رہتے ہیں۔ پہلی طرح کے لوگ یہ سمجھ کر زندگی گزارتے ہیں کہ جس نے ان کو پیدا کیا ہے ا س کے ان پر حقوق ہیں اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ لوگ اس کے فرماں بردار بن کر زندگی گزاریں اور جن باتو ںکا اس نے حکم دیا ہے اس کے خلاف نہ چلیں۔ یہاں تک کہ بہت سے ایسے کام بھی جن کو یہ لوگ آسانی کے ساتھ کرسکتے ہیں محض اس لئے نہیں کرتے کہ ان کا کرنا پیدا کرنے والے کی خوشی کے خلاف ہوتا ہے۔ گویا ان کے پیدا کرنے والے نے ہر طرح کے کام کرنے کی جو قوت اور آزادی ان کو دی ہے، اس سے وہ از خود یہ سمجھ کر دست بردار ہوجاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دیگر احسانوں کے علاوہ ان کو جو یہ بلند مقام عطا فرمایا ہے کہ وہ دنیا کی اور مخلوقات کی طرح مجبور نہیں ہیں بلکہ ان کو ان سے ممتاز کرنے کے لئے ایک طرح کی آزادی بھی دے دی ہے، تو خود اس نعمت کی شکر گزاری کا یہ تقاضا ہے کہ وہ اپنے اس حق کو اس کی مرضی کے مطابق استعمال کریں۔ درحقیقت ان کا یہ سمجھنا صحیح بھی ہے، عقل بھی یہی چاہتی ہے اور انسان کی فطرت بھی اسی کا مطالبہ کرتی ہے کہ انسان اپنے منعم و محسن کی شکر گزاری کرے، چنانچہ اسی بنا پر جو لوگ ایسا نہیں کرتے ان کو عام طور سے بُرا کہا جاتا ہے، بُرا سمجھا جاتا ہے۔
پھر جب اللہ تعالیٰ ہمارا سب سے بڑا منعم و محسن ہے، اسی نے ہم کو پیدا کیا، ہمارے زندہ رہنے کے لئے ہر طرح کے سامان فراہم کئے، ہمیں عقل دی، فہم عطا فرمائی، اور ان سب سے بڑھ کر ہمارا درجہ اپنی بے شمار مخلوقات سے بہت اونچا اور بلند بنایا، تو کیا ہمارا یہ فرض نہیں ہے کہ ہم اس کی اطاعت و فرماں برداری کریں اور اس کی مرضی کے مطابق اپنی زندگی گزاریں؟ اس کا جواب ایک ہی ہوسکتا ہے کہ بلاشبہ یہی ہمارا فرض ہونا چاہئے۔ چنانچہ خود قرآن مجید بھی اسی بنیاد پر انسان سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اسے خدا کا مطیع و فرماں بردار بن کر دنیا میں رہنا چاہئے کیوں کہ وہ ان کا خالق اور حاکم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’میں نے جن و انس کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں، میں ان سے ذرا بھی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں پلائیں، حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کو رزق دینے والا ہے، قوت والا ہے، زبردست ہے۔ ‘‘ (سورۃ الذاریات : ۵۶؍ تا ۵۸)
اسی بنا پر جو لوگ نیک اور سمجھ دار ہوتے ہیں، وہ دنیا میں اپنا فرض یہی سمجھتے ہیں۔ حضرت لقمانؑ خدا کے ایک نہایت ہی نیک بندے گزرے ہیں، ان کا دل بھی خدا کے انعامات کے تصور سے اس کے آگے جھکا ہوا تھا، چنانچہ وہ خود بھی خدا کی اطاعت کے ساتھ زندگی گزارتے تھے اور اپنی اولاد سے بھی یہی چاہتے تھے۔،انہوںنے ایک مرتبہ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’اے پیارے بیٹے اللہ سے شرک نہ کر، بلاشبہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘
( سورۃ لقمان:۱۳)
ایسے ہی حضرت سلیمان علیہ السلام خدا کے چہیتے بندے تھے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت اور شوکت و حشمت بہت کچھ دے رکھا تھا۔ لیکن وہ یہ نعمتیں پاکر اترائے نہیں تھے اور نہ ان کو پاکر خدا سے غافل ہوگئے تھے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے جتنا بھی اپنے فضل سے نوازا تھا اتنا ہی ان کا دل خدا کے حضور میں جھکا رہتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ اپنے لشکر کے ساتھ کہیں جارہے تھے، راستے میں ایک وادی میںان کا گزر ہوا تو وہاں چیونٹیوں نے آپس میں گفتگو کی جسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے سن لیا۔ چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا ان پر خاص فضل ہوا تھا، اس لئے اس کا تصور کرکے وہ خدا کے حضور میں جھک گئے اور ان الفاظ میں دعاکی:
’’اے رب مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو بخشیں اور مجھے ایسی توفیق دے کہ میں ایسے نیک کام کروں جنہیں تو پسند فرمائے اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے صالح بندوں میں شامل فرما۔‘‘ ( سورۃ النمل: ۱۹)اس آیت میں دیکھو کہ خدا کے فضل و انعام کا تصور آنے سے ان کے دل میں کس طرح شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہوا اور اس جذبے نے کس طرح ان کے دل میں نیک بننے کا جذبہ پیدا کردیا۔ ایسے ہی قرآن شریف میں اور بہت سے بندوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کا طریقہ یہی تھا کہ خدا کے انعامات و احسانات کے تصور سے ہمیشہ اس کے سامنے جھکے ہوئے رہتے تھے اور اس کی مرضی کے خلاف کوئی بات کرنے کے لئے کسی حال میں آمادہ نہیں ہوتے تھے۔ اس کے برعکس جو لوگ نہ اپنے لئے کسی خالق کا تصور رکھتے ہیں اور نہ وہ اپنے اوپر اپنے نفس کے علاوہ کسی کا حق سمجھتے ہیں، ان کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں جو کچھ چاہتے ہیں بے جھجک ہوکر کرتے ہیں۔ ظاہر ہے ایسے لوگ کسی ضابطہ اخلاق وغیرہ کی پابندی کسی حال میں نہیں کرسکتے، وہ کوئی نیک کام اگر کریں گے بھی تو اس میں ان کی اپنی غرض چھپی ہوگی۔ ایسے لوگ نہ صرف یہ کہ اپنے خالق و مالک کی ناشکری کرکے اپنے کمینے پن اور حد درجہ بداخلاقی و عقلی پستی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ دنیا میں فتنے و فساد کا بھی باعث بنتے ہیں کیوں کہ ایسے لوگوں کے لئے برائی سے روکنے والی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جو اپنے سب سے بڑے منعم و محسن کا اپنے اوپر کوئی حق نہیں سمجھتا، وہ بھلا اوروں کے حقوق کا کیا لحاظ کرسکتا ہے۔ وہ تو بس دنیا میں اپنا بھلا چاہے گا اور کسی کا بھی نہیں۔ اس کو اگر کوئی قانون وغیرہ سے بھی جکڑ کر ٹھیک بنانا چاہے گا تو وہ نہیں ہوسکے گا بلکہ وہ خود قانون توڑنے کے لئے مختلف طریقے اور بہانے بنالے گا اور اس کا کوئی کچھ نہیں کرسکے گا، جیسا کہ تم آج کل دیکھ رہے ہو کہ خدا کے باغی ہر طرح کے قانون کی موجودگی میں سب کچھ کررہے ہیں اور روکنے والے ان کو روکنے سے عاجز ہیں۔